راتوں کی گود میں تھے عذابوں کے سلسلے
راتوں کی گود میں تھے عذابوں کے سلسلے
آنکھوں میں پھیلتے گئے خوابوں کے سلسلے
پیکار تھم گئی تو کھلا راز دوستو
میلوں تلک تھے شہر خرابوں کے سلسلے
اب دل کی وسعتوں میں ذرا آ کے دیکھیے
یادوں کی سر زمیں پہ گلابوں کے سلسلے
صحرا ہو ریگ زار ہو یا شہر آرزو
ملتے ہیں دور دور سرابوں کے سلسلے
رنگین آنچلوں میں وہ لپٹے ہوئے جمال
آنکھوں میں جھانکتے ہیں نقابوں کے سلسلے