وقت کے ناخون سے یادیں ہیں کچھ کھرچی ہوئیں
وقت کے ناخون سے یادیں ہیں کچھ کھرچی ہوئیں
ایک پرانا سا مکاں دیوار جاں جھڑتی ہوئیں
تو تو میں میں کامیابی اور کوشش میں غضب
ہاٹ پر جیوں کچھ پرانی بوڑھیاں لڑتی ہوئیں
کچھ نئے قدموں کو گم گشتہ ٹھکانوں کی تلاش
کچھ گذشتہ آہٹیں طے فاصلہ کرتی ہوئیں
ذہن نے اپنی گرفتوں میں لیا ہے دل کو جیوں
عمر کی دہلیز پر بد معاشیاں چڑھتی ہوئیں
جو خیالی تھے پلاؤ ذائقہ ان کا لیا
اب دماغوں کے کچن میں ہانڈیاں الٹی ہوئیں
جو ملے تعریف ان کی حد سے زیادہ کر دیا
جا رہیں پہلے کی وہ بیباکیاں چڑھتی ہوئیں
یاد تھی کمرے سے غائب اور تصور جا بہ جا
دل منظم ہی تھا کندنؔ دھڑکنیں بکھری ہوئیں