طبیب اعظم
جو زخم میں نے تجھے دیے ہیں
جو زخم تو نے مرے خیالوں کے ان
گداز اعضا پہ دیے ہیں
وہ اب فضا میں بکھر گئے ہیں
ہمارے جسموں کی قید سے وہ
نکل گئے ہیں
بکھر گئے ہیں ہر ایک شے میں
ہوا میں پیڑوں میں بادلوں میں
وہ کوہ و دریا کی چپیوں
اور شور و غل میں اتر گئے ہیں
جدھر بھی دیکھوں
وہ زخم چپکے چپکے
رس رہے ہیں
جو باغ میں اک کلی کو چھو لوں
تو انگلیوں پہ مواد سا کچھ
دکھائی دے دے
جو بادلوں سے ٹپکے پانی
تو بوند میں سڑ رہے لہو کی
مہک سی آئے
کبھی جو گھبرا کے کوئی
کتاب اٹھا لوں
تو اس کے پنوں پہ
پٹیوں کا گماں ہو جو کہ
ابھی اتاری گئی ہوں
کسی کے زخم خوردہ بدن سے
سنا ہے ہم نے
کہ وقت تو ایک چارہ گر ہے
اور اس کی زنبیل میں
کتنے نسخے
کہاں نہ جانے وہ گم ہوا ہے
کہ لمحے لمحے میں کس جتن سے
ڈھونڈھتا ہوں
کہانیوں میں ہے ذکر جس کا
وہ تیرا میرا وقت جو ہے
طبیب اعظم