باہر گلیوں میں ویرانی اندر کمرہ سناٹا

باہر گلیوں میں ویرانی اندر کمرہ سناٹا
ہار گیا آواز کا لشکر دیکھو جیتا سناٹا


خاموشی کے نل سے ٹپکتیں قطرہ قطرہ آوازیں
دیواروں کی سیلن پر ہے کائی جیسا سناٹا


گرم دوپہر میں یہ سڑکیں حد نظر تک ویراں ہیں
تیز دھوپ کے سارے بدن سے بہتا پسینہ سناٹا


ملنا جلنا گپ ٹھہاکے پل پل اپنے ساتھ چلے
آخری شب سب چھوٹ گئے بس اک ساتھی تھا سناٹا


ہونٹوں کے پہرے داروں کو نیند کی دے کر ایک دوا
دل کے تہہ خانے میں ہولے ہولے اترا سناٹا


دستک دے گی غزل کی مہماں اہتمام یہ اس کا ہے
چائے کی پیالی رات کی سیاہی گہرا پسرا سناٹا


ایک گھڑی بھی چپ نہیں بیٹھا کندنؔ بولتا رہتا تھا
کس کو پتہ اس میں پنہا تھا جیون بھر کا سناٹا