آدمی خود کو عجب رنگ میں ڈوبا دیکھے
آدمی خود کو عجب رنگ میں ڈوبا دیکھے
ہونٹ تشنہ ہوں مگر آنکھ میں دریا دیکھے
زیست کرنے کے لئے عمر بہت تھوڑی ہے
اپنی دنیا سے الگ کیا کوئی دنیا دیکھے
دشت تنہائی میں اب لمس جدائی بھی نہیں
آئینہ گر سے کہو اپنا تماشا دیکھے
شہر آشوب میں مہتاب صفت کوئی تو ہو
زندگی بیت رہی ہے کوئی چہرہ دیکھے
آخری معرکۂ شب میں جو بچ جائے اسے
یہ ضروری تو نہیں صبح کا تارا دیکھے
مستقل ہجر نے آنکھوں کا ہنر چھین لیا
کون اب طاق میں خورشید کو جلتا دیکھے
ایسا ممکن تو نہیں پھر بھی یہ جی چاہتا ہے
میں نہ گھر لوٹوں تو شب بھر کوئی رستہ دیکھے