سخنور

سخنورو
میرے ہم عصرو
میری عمر کے شاعرو
کوئی تو ایسی غزل کہو
کوئی تو ایسی نظم لکھو
جسے سن کر تمہارے شاعر ہونے کا ثبوت ملے
تمہیں ذی فہم ہونے کا خطاب ملے


کبھی تو خالق تھے آج مخلوق ہیں ہم
کبھی تو حاکم تھے آج محکوم ہیں ہم
کبھی تو قاتل تھے آج مصلوب ہیں ہم


غالبؔ و میرؔ نے عشق بتاں پر اپنی نظر رکھی
اقبال نے قدموں کے تلے
قاتل کی زباں رکھی
ترقی پسندوں نے مزدور کے حصار بلند کیے
خود تو رہے بلند بانگ محلوں میں
جھونپڑیوں کے فسانے تحریر کیے


جدیدیت کا تقاضا ہے درد و غم ذات
تنہائی بے بسی المناکی
اکتائے ہوئے لوگ
نہ محبت نہ سکون نہ دوستی نہ دشمنی
نہ کہیں قرار
ہر سو زندگی سے فرار
یہی مضامین نو ہیں
میرے عہد کے قلم کارو
تم ان پہ بھی اپنی نظر رکھو
لکھو حکایات خوں چکاں
ورنہ خود کو شاعر نہ کہو
اپنے ہاتھوں سے قلم رکھ دو