وہی حسرتیں وہی آرزو مری زندگی میں خوشی نہیں
وہی حسرتیں وہی آرزو مری زندگی میں خوشی نہیں
تری چشم ناز کو کیا کہوں مرے سوز غم میں کمی نہیں
نہ نسیم ہے نہ بہار ہے نہ گلوں میں اب ہے شگفتگی
ہے اداسیوں کا عجب سماں کہ کسی کے لب پہ ہنسی نہیں
میں ہوں مشکلوں میں گھرا ہوا ترے در سے دور پڑا ہوا
تری یاد سے ہوں ضرور خوش کوئی اور وجہ خوشی نہیں
وہ نگاہ ناز سے آگ جو مرے دل میں تم نے لگائی تھی
وہ دبی دبی سی ضرور ہے مگر آج تک وہ بجھی نہیں
نہ وہ گرمیاں نہ وہ مستیاں نہ وہ سوز و ساز ہے ساقیا
ترے میکدے میں مرے لئے کسی شے میں جلوہ گری نہیں
میں وہ عندلیب بہار ہوں جسے باغباں نے مٹا دیا
میں وہ گلستان حیات ہوں کہ شگفتہ کوئی کلی نہیں
ہے کہاں وہ اسلمؔ خوش نوا جو رہین عیش و نشاط تھا
ترے غم نے اس کو مٹا دیا کہ خوشی سے اس کو خوشی نہیں