درد جتنے ہیں وہی باعث درماں ہوں گے
درد جتنے ہیں وہی باعث درماں ہوں گے
چارہ گر تیرے نہ شرمندۂ احساں ہوں گے
دیکھنا گیسوئے جاناں بھی پریشاں ہوں گے
موسم گل میں جو ہم چاک گریباں ہوں گے
یوں ترے عشق میں ہم بے سر و ساماں ہوں گے
اپنی ہستی کے تصور سے گریزاں ہوں گے
داستاں غیر کی رنگین بنانے والے
دیکھنا میرے فسانے کے بھی عنواں ہوں گے
نہ رہے گا رہ الفت میں خودی کا احساس
طلب حسن میں جب بے سر و ساماں ہوں گے
حسرت و یاس کے مارے ہیں سبھی تو غنچے
باغباں اب نہ چمن میں گل خنداں ہوں گے
یہی غمزے یہی وعدے یہی انداز وفا
یہی اک روز مری موت کے ساماں ہوں گے
آج ہنستے ہیں جو دیوانگئ دل پہ مری
ایک دن خود بھی وہ انگشت بدنداں ہوں گے
رات جو بزم خرابات میں مدہوش ہوئے
محتسب ہم کو یقیں ہے وہ مسلماں ہوں گے
شوق تکمیل جنوں مجھ کو لئے جاتا ہے
ہوں گے اب زیر قدم جتنے بیاباں ہوں گے
پھر وہی وحشت دل جوش میں آئی اسلمؔ
پھر مرے مونس و غم خوار پریشاں ہوں گے