وفا سے کام لینا چاہتا ہوں

وفا سے کام لینا چاہتا ہوں
میں دامن تھام لینا چاہتا ہوں


تھکن سے اضطراب روز و شب کی
ذرا آرام لینا چاہتا ہوں


تعجب تو یہی ہے بے دلوں سے
میں دل کے دام لینا چاہتا ہوں


نہیں مجھ میں شعور قدر ذاتی
صلائے عام لینا چاہتا ہوں


خرد کی راہ میں ناکام ہو کر
جنوں سے کام لینا چاہتا ہوں


مٹا کر اپنے احساس انا کو
تمہارا نام لینا چاہتا ہوں


ملکؔ جس میں مئے وحدت بھری ہو
میں ایسا جام لینا چاہتا ہوں