شفا کا مرحلہ آزار نکلا

شفا کا مرحلہ آزار نکلا
مسیحا آپ ہی بیمار نکلا


کرم کی داستانوں کے مقابل
ستم نا قابل اظہار نکلا


دکھائی دیتا تھا اک مرد میداں
مگر وہ غازیٔ گفتار نکلا


محبت سات پردوں میں چھپا کر
کوئی رسوا سر بازار نکلا


جسے سمجھے تھے ہم شایان جنت
زمانہ وہ زوال آثار نکلا


بظاہر تو کوئی خامی نہیں تھی
یہ باطن کوئی بد اطوار نکلا


ملکؔ کتنا ہی سمجھایا نہ مانا
ہمارا دل بھی ناہنجار نکلا