ہمارے شعر کی وقعت ہی کیا ہے
ہمارے شعر کی وقعت ہی کیا ہے
جگر کے خون کی قیمت ہی کیا
غریب انسان کی آواز ہی کیا ہے
غریب انسان کی عزت ہی کیا ہے
پلٹ جانا ہوا کا چلتے چلتے
نظام گردش قسمت ہی کیا ہے
نہ ہم سے پرسش حالات کرنا
جہاں دکھ ہوں وہاں راحت ہی کیا ہے
رہے گا جینے مرنے کا تسلسل
زمانے سے اسے نسبت ہی کیا ہے
خدائے پاک کی مرضی کے آگے
مجال بندہ و ہمت ہی کیا ہے
ملکؔ اچھی نہیں تقدیر اس کی
نصیب عشق میں راحت ہی کیا ہے