جنہیں ہم مان بیٹھے تھے ہمارے
جنہیں ہم مان بیٹھے تھے ہمارے
وہ دشمن بن گئے سارے کے سارے
بڑا مجبور ہے یہ ابن آدم
زمیں پر عرش سے کس کو اتارے
نظر آتی نہیں اب جن کی صورت
کہاں ہیں وہ مرے دلبر دلارے
اسی نے مجھ کو الجھائے رکھا ہے
وہ جس کے مدتوں گیسو سنوارے
اماں دیں گے اگر اہل زمانہ
تو جی لیں گے محبت کے یہ مارے
وطن سے دور اک آفت کا مارا
دیار غیر میں کس کو پکارے
سہارا ہے ملکؔ وہ رب داور
جئے جاتے ہیں ہم جس کے سہارے