عشق کی راہ پہ چلنا روش عام ہے یہ
عشق کی راہ پہ چلنا روش عام ہے یہ
دیکھتا کون ہے آغاز کہ انجام ہے یہ
زندگی کا کوئی رستہ نہ کوئی موت کا رخ
کون سے موڑ پہ اب گردش ایام ہے یہ
خون کی تم نے ادا خون کی قیمت میرے
غور کیجے تو پسینے کا نہیں دام ہے یہ
تم چلے آئے ہو اک جھوٹی تسلی دینے
سارے دکھ درد سہی ایک تو آرام ہے یہ
حسن محبوب پہ جی جان سے قرباں ہونا
قسمت عشق میں بس ایک حسیں کام ہے یہ
کل جو کہتے تھے غنی آج گدا کہتے ہیں
اک مرا نام تھا وہ ایک مرا نام ہے یہ
کون آیا ہے ملکؔ آج اجالا بن کر
کس کی آمد میرے آنگن میں سر شام ہے یہ