واپسی
ڈھلتے سورج کا زرفشاں تابوت
لے چلے مغربی افق کے کہار
اور درماندہ رہ گزاروں پر
جم گیا وقت صورت اشجار
بے کراں بے اماں خلاؤں تک
چیختی جاتی ہیں ابابیلیں
پربتوں کے مہیب چہروں سے
ڈر کے خاموش ہو گئیں جھیلیں
ہر کھنڈر میں ہیں بھوت محو رقص
کاسۂ سر کی لے کے قندیلیں
اور دور اس فصیل شام سے دور
چاند کا انتظار ہے تم کو
خود کشی جسم و جاں کی کر کے بھی
زیست کا اعتبار ہے تم کو
بے نفس بے ردائے تار حیات
ہم برہنہ ہیولے کیا گھومیں
منہ کھلی قبریں رو رہی ہوں گی
آؤ قبروں میں اپنی لوٹ چلیں