ہوا کا نوحہ

اپنی اور قیوم راہیؔ کی ماں کی موت پر
ستارے چپ ہیں کسی بیوہ مانگ کی مانند
بجھا بجھا ہے سر شام چاند کا جھومر
دمکتی راہوں کے دھندلا گئے ہیں آئینے
اتر چکا ہے خلاؤں میں روشنی کا نگر


مہیب و سرو و سیہ ہاتھ بڑھتے جاتے ہیں
کھنچے ہوئے ہیں فضاؤں میں آتشیں خنجر
فرشتے روتے ہیں اپنے پروں کو پھیلائے
خزاں کے ناچتے پتوں کی ماتمی لے پر


ہوائیں دیتی ہیں دستک مرے دریچوں پر
مجھے یہ ڈر ہے نہ بجھ جائے تیری شمع حیات
چل اب کہ چل کے مقفل کریں یہ دروازے
تجھے نہ چھین لیں مجھ سے مرے رقیب اوقات


نہ جانے کیا مرے اللہ ہونے والا ہے
مہیب سایہ اندھیرے میں تھرتھراتا ہے
بڑھا کے ہاتھ یہ دروازہ کس نے کھول دیا
یہ تیری سمت دبے پاؤں کون آتا ہے


یہ کس نے بانہوں میں گھبرا کے بھر لیا تجھ کو
کہ جیسے دیو ہو شہزادے کے فسانوں کا
فضا پہ پھونک گیا پڑھ کے موت کا افسوں
ہر ایک شے ہے یہاں تیری طرح مرگ آسا


پھر اس طرح سے ترا پیکر نحیف اڑا
کہ جیسے گرد کوئی آندھیوں کے ساتھ چلے
بھٹکتی رہ گئی اندھیاروں میں مری آواز
چراغ قبر کی مانند میں نے ہاتھ ملے


ہر ایک شہر میں تنہا گلی گلی تنہا
میں پھر رہا ہوں ترے غم کی لاش اٹھائے ہوئے
خزاں کے وقت کوئی جیسے برگ آوارہ
روش روش پہ خود اپنے ہی مدفنوں کو گنے