نفس نفس ہے بھنور چڑھتی شب کا منظر ہے

نفس نفس ہے بھنور چڑھتی شب کا منظر ہے
حصار جسم میں اک چیختا سمندر ہے


ہوائے تازہ کے مانند مت لپٹ مجھ سے
گئی رتوں کا بہت زہر میرے اندر ہے


نکل کے جاؤں گنہ گار تیرگی سے کدھر
ہر ایک ہاتھ میں اب روشنی کا پتھر ہے


اک آگ اڑتی ہوئی سی وہی تعاقب میں
بدن کی راکھ ابھی شاید بدن کے اندر ہے


تو کیوں اڑھاتا ہے مجھ کو یہ روشنی کی ردا
مجھے خبر ہے اندھیرا مرا مقدر ہے


صلیب شب سے مصورؔ سحر کے مقتل تک
کہاں ملیں کہ ہر اک فاصلہ برابر ہے