اسی کو دوست رکھا دوسرا بنایا نہیں

اسی کو دوست رکھا دوسرا بنایا نہیں
کئی بناتے ہیں میں نے خدا بنایا نہیں


یہ بستی رات کا کس طرح سامنا کرے گی
یہاں کسی نے بھی دن میں دیا بنایا نہیں


پتا کرو کہ یہ نقاش کس قبیل کا ہے
پرندہ جب بھی بنایا رہا بنایا نہیں


یہ لوگ ظلم کما کر شب ایسے سوتے ہیں
خدا نے جیسے کہ روز جزا بنایا نہیں


لہو بھی جلتا ہے جھڑتی ہے خاک بھی میری
کہ شعر اترتا ہے لیکن بنا بنایا نہیں


وہ مہرباں ہے مگر بھولتا نہیں مجھ کو
وہ ایک کام جو اس نے مرا بنایا نہیں


اداس دیکھا نہیں جاتا کوئی مجھ سے عقیلؔ
کسی کو اس لیے حال آشنا بنایا نہیں