ترا کرم کہ میں جب مات تک پہنچ جاتا

ترا کرم کہ میں جب مات تک پہنچ جاتا
تو کوئی ہاتھ مرے ہاتھ تک پہنچ جاتا


میں اس کی بزم میں چپ چاپ ہی رہا کرتا
مگر وہ پھر بھی مری بات تک پہنچ جاتا


میں بھاؤ تاؤ اگر کرتا تو وہ خواب فروش
قیاس ہے مری اوقات تک پہنچ جاتا


اگر نہ ملتا مجھے شام ماہ آوارہ
یقین مانو میں گھر رات تک پہنچ جاتا


میں اپنے بھائی کو پردیس کیوں بلاتا عقیلؔ
وہ اس طرح مرے حالات تک پہنچ جاتا