کوئی تو راہ سجھا دور تک اندھیرا ہے

کوئی تو راہ سجھا دور تک اندھیرا ہے
کہاں ہے میرے خدا دور تک اندھیرا ہے


مرا خیال تھا کچھ آگے روشنی ہو گی
میں جانتا نہیں تھا دور تک اندھیرا ہے


کسی کی کھوج میں نکلا ہوں مہر و ماہ لیے
ہے التماس دعا دور تک اندھیرا ہے


نہ ہوگا طے یہ سفر صرف روشن آنکھوں سے
چراغ دل بھی جلا دور تک اندھیرا ہے


نظر کے سامنے تھے ان گنت ستارے مگر
فقیر کہتا رہا دور تک اندھیرا ہے


ہمارے ہاتھ کی ریکھائیں کیا بتاتی ہیں
ہمیں بتائیے کیا دور تک اندھیرا ہے


عقیلؔ پہلے تو بینائی کی بشارت دی
پھر اس نے مجھ سے کہا دور تک اندھیرا ہے