کیا بچاؤں تجھے کیا لٹاؤں تجھے مختصر زندگی

کیا بچاؤں تجھے کیا لٹاؤں تجھے مختصر زندگی
خود پہ اوڑھوں کہ نیچے بچھاؤں تجھے مختصر زندگی


ذرہ ذرہ بکھر کر بھی آخر تجھے ختم ہونا تو ہے
کیوں نہ یک دم ہوا میں اڑاؤں تجھے مختصر زندگی


تیری کھیتی پہ میرا گزارہ نہیں بھوک مٹتی نہیں
جی میں آتا ہے میں بیچ کھاؤں تجھے مختصر زندگی


کھینچنے کا جو وعدہ کرے سانس کو وصل کے پل تلک
قصۂ طول ہجراں سناؤں تجھے مختصر زندگی


تجھ سے اگلی طرف موت کی وسعت بے کراں موجزن
تو ہے دیوار سی چل گراؤں تجھے مختصر زندگی


چار دن کی ہے مہماں مرے پاس تو مجھ سے روٹھا نہ کر
ناز تیرے اٹھاؤں مناؤں تجھے مختصر زندگی


عین ممکن ہے تو پھیل جائے یوں ہی وسعت جسم میں
روگ کی طرح دل سے لگاؤں تجھے مختصر زندگی