اس نے پتھر میں خود کو ڈھالا تھا

اس نے پتھر میں خود کو ڈھالا تھا
تب کہیں مجھ کو ہنس کے ٹالا تھا


ہم نے خواہش کی پرورش کی تھی
سانپ اک آستیں میں پالا تھا


سوچنے والے سوچتے ہی رہے
ہو گیا وہ جو ہونے والا تھا


زہر دیتا نہ وہ تو دیتا کون
ہم نوالا تھا ہم پیالہ تھا


زندہ رہنے کی تب ملی تھی چھوٹ
اس نے جب خود کو مار ڈالا تھا


پائمال ہجوم ہوں میں نے
راستہ اک نیا نکالا تھا