اس کی قربت کا تماشا بھی عجب ہے سائیں

اس کی قربت کا تماشا بھی عجب ہے سائیں
لوگ بیمار سمجھتے ہیں غضب ہے سائیں


اب طبیعت کے نہ لگنے پہ کھلا محفل میں
اک وہی شوخ نہیں ویسے تو سب ہے سائیں


ہائے کمبخت نے اس درجہ کیا ہے مایوس
میں سمجھتا تھا کہ اظہار بہ لب ہے سائیں


میں بھی کچھ اپنے ہنر کا تو دکھاؤں جلوہ
جشن نو روز بتا شہر میں کب ہے سائیں


رنگ کھلتا ہے کہاں شام سے پہلے اس کا
شام بھی دیر سے آتی ہے غضب ہے سائیں


شوق میرا یہ نہیں ہے مری مجبوری ہے
کچھ تو اس طرح بھٹکنے کا سبب ہے سائیں


درد دل لے کے کہیں اور بھلا کیوں جاؤں
سامنے جب مرے تیرا یہ مطب ہے سائیں