تذکرہ

احمد ندیم قاسمی: ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار

احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی ، اپنے اشتراکی نظریات اور ترقی پسندی کو ترک کر کے دین کی طرف آئے۔ اور دین سے والہانہ تعلق کا اظہار ان کے آخری دور کی تحریروں اور شاعری میں بہت واضع دیکھائی دیتا ہے۔ آپ کی ایک مشہور نعت ، "کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا"، میں عقیدت اور عقیدے کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔

مزید پڑھیے

انیس اور دبیر کا موازنہ کرنے والے

کتاب

 علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے ۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیے  ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ان کے ان ہی ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ مجیدی کے پروقار اعزاز سے نوازا۔ ، آپ کا 18نومبر 1914ء کو انتقال ہوا ،اور آپ  اعظم گڑھ ،اتر پردیش ، ہندوستان میں محو خواب ہیں ۔ مگر مولانا شبلی علیہ رحمہ کے علمی کارنامے  اور  اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا

مزید پڑھیے

اکبر الہ آبادی: دنیا میں ہوں ، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

اکبر الہ آبادی

وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی۔ انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ اس کے علاوہ وہ علی گڑھ تحریک کےبھی زبردست ناقد تھے اور انہوں نے سر سید اور ان کے احباب کی شدید مخالفت کی۔ اودھ پنچ کی جانب سے انہوں نے مغرب اور اہل مغرب کے خوب لتے لیے

مزید پڑھیے

شکیب جلالی: فصیل جسم سےآگے نکل گیا ہے کوئی

شکیب جلالی

کچھ عرصہ روزنامہ مشرق میں جزوقتی ملازمت کی اور بالآخر تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی جوہر آباد کے شعبہ تعلقاتِ عامہ میں اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر بن گئے ۔ لیکن غیر مطمٔن ہی رہےاور محض 32 سال کی عمر میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل کے سامنے کود کر خودکشی کر لی ۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا ، تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں ؛ آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

مزید پڑھیے

پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر اور ڈراما نویس جنہوں نے عوامی تجربات کو آواز دی

عدیم ہاشمی

۲۰۰۱ء میں اپنے عزیز اورممتاز شاعر افتخار نسیم کے پاس امریکا چلے گئے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کا بائی پاس آپریشن ہوچکا تھا ۔وہ۵؍نومبر۲۰۰۱ء کو شکاگو میں انتقال کرگئے۔ شکاگو میں‌ پاکستانیوں کے لیے مخصوص قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘، ’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘۔

مزید پڑھیے

عظیم استاد ، مدیر ،زبان دان اور صحافی کی یاد میں

اردو

3 مئی، 1979ء کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر کی شادی ہے۔ اس شادی میں شرکت کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رُخصت استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے۔ عین نوازش ہوگی"۔ درخواست پڑھ کر ایگزیکٹو ایڈیٹر صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اُنہوں نے درخواست گزار کو فی الفور اپنے دفتر میں طلب فرما لیا اور درخواست سامنے رکھ کر اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں باز پُرس فرمائی: "کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرماویں گے؟

مزید پڑھیے

قمر جلالوی کا یومِ وفات

قمر جلالوی

قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ اسی لیے ان کے یہاں فکر کی شدت کم ہے اور زبان کا ذائقہ بہت زیادہ۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔

مزید پڑھیے

علامہ کے بے تکلف دوست : شیخ غلام قادر گرامی

calligraphy Muhammad

اپنی شاعرانہ طبیعت کی وجہ سے وکالت کی بجائے امرتسر میں معلم ہوگئے ۔اس سے اکتاکر مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے حیدر آباد دکن پہنچے اور نظام دکن میر محبوب علی خان  کے  دربار میں منسلک ہوئے اور ملک الشعراء کے منصب پر فائز ہوئے۔ گرامی، علامہ اقبال کے بے تکلف دوست تھے اور علامہ ان کی بڑی قدر کرتےتھے۔لاہور آتے تو علامہ کے ہاں ہفتوں قیام رہتا۔ شاہنامہ اسلام کے مصنف اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حضرت حفیظ جالندھری اور  روزنامہ انقلاب کے مولانا عبد المجید سالک ان کے شاگرد ہیں۔

مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3