پیر سید نصیر الدین نصیرؒ کا یوم پیدائش

 

مشہور پاکستانی شاعر ،ادیب ،محقق ،خطیب ،عالم اور صوفی باصفا و پیر سلسلہ چشتيہ تھے۔ آپ اردو، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔ اس کے علاوه عربی، ہندی، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے۔ اسی وجہ سے انہیں"شاعر ہفت زبان" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین،

مختصر تعارف

یوم پیدائش۔ 14 نومبر 1949 ، گولڑہ شریف،

یوم وفات ، 13 فروری 2009 ، گولڑہ شریف

پیر نصیر الدین نصیر آپ پیر غلام معین الدین ،المعروف بڑے لالہ جی کے فرزند ارجمند اور پير مہر علی شاہ کے پڑپوتے تھے۔۔ آپ گولڑہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین تھے ، آپ ؒ کی 36 سے زائد تصانیف ہیں جن میں چند ایک کے نام درج ذیل ہیں

: آغوشِ حیرت،رباعیات فارسی ،پیمانِ شب ،غزلیات اردو ، دیں ہمہ اوست ،عربی، فارسی، اردو، پنجابی نعوت ، امام ابوحنیفہ اور ان کا طرزِ استدلال ، اردو مقالہ

نام و نسب ، در بارِسیادت پیران پیر  ،فیضِ نسبت ،عربی، فارسی، اردو، پنجابی مناقب ،رنگِ نظام ، رباعیات اردو

عرشِ ناز (کلام در زبان هائی فارسی و اردو و پوربی و پنجابی و سرائیکی ) دستِ نظر ، غزلیات اردو،  راہ و رسمِ منزل ہا تصوف و مسائل عصری،  تضمینات بر کلام جناب احمد رضا بریلوی  ،قرآنِ مجید کے آدابِ تلاوت

 اسلام میں شاعری کی حیثیت ، مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب ، پاکستان میں زلزلے کی تباہ کاریاں: اسباب اور تجاویز، فتوی نویسی کے آداب ،کیا ابلیس عالم تھا؟

موازنہ علم و کرامت

 

پیر سید نصیر الدین نصیر کا یوم پیدائش  پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطورِ خراج عقیدت ۔

دین سے دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں

تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں

۔۔۔۔۔

ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جانانہ مجھے

محفلِ ہستی ہے    گویا   آئینہ  خانہ  مجھے

اِک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا مرا

یاد کر کے روئیں گے یارانِ میخانہ مجھے

دل ملاتے بھی نہیں دامن چھڑاتے بھی نہیں

تم نے آخر کیوں بنا رکھا  ہے   دیوانہ  مجھے

یا کمالِ قُرب    ہو    یا     انتہائے    بُعد   ہو

یا نبھانا ساتھ یا پھر بُھول ہی جانا مجھے

انگلیاں شب زادگانِ شہر کی   اُٹھنے  لگیں

میرے ساقی دے ذرا قندیلِ میخانہ مجھے

تُو ہی بتلا اس تعلق کو بھلا کیا نام دوں

ساری دنیا کہہ رہی ہے تیرا دیوانہ مجھے

جس کے سناٹے ہوں میری خامشی سے ہم کلام

کاش مل جائے نصیرؔ اک    ایسا   ویرانہ  مجھے

۔۔۔۔۔

یہ کون سیر کا ارماں لئے چمن سے گیا

کہ بادِ صبا کے جھونکے بھی سوگوار چلے

یہ کیا کہ کوئی بھی رویا نہ یاد کر کے اُنہیں

وہ چند پھول جو حُسنِ چمن نکھار چلے

نقاب،،اُٹھا کہ پڑے اہلِ درد میں ہلچل

نظر ملا،، کہ چُھری دل کے آر پار چلے

خُوشا کہ در پہ ترے سر جھکا لیا ہم نے

یہ اک قرضِ جبیں تھا جسے اُتار چلے

کہے جو حق وہ  کرے کیوں ماٰلِ حق سے گریز

کوئی چلے نہ چلے ہم تو سُوے دار چلے

اَب اِس کے بعد چمن جانے یا صبا جانے

گزارنے تھے ہمیں چار دن گزار چلے

پلٹ کے دیکھا نہ ایک بار کارواں نے ہمیں

گِرے پڑوں کی طرح ہم پسِ غبار چلے

جو اُن کی یاد میں چمکے کبھی سرِ مژگاں

وہ چار اشک مری عاقبت سنوار چلے

کسی کی یاد سے تسکینِ جاں ھے وابستہ

کسی کا ذکر چلے اور بار بار چلے

تہماری بزم سے تاثیر اُٹھ گئی شاید

بہ حالِ زار ہم آۓ،بہ حالِ زار چلے

غریبِ شہر کی میت کے ساتھ روتا کون

مِرا سلام ہو اُن پر جو اشک بار چلے

قفس میں روز دکھاتا ہے آشیاں صیاد

نصیر آگ لگا دوں جو اختیار چلے

۔۔۔۔۔۔۔

حشر کے دِن بھی ہو شرحِ غم تمہارے سامنے

سب خُدا کے سامنے ہوں ہم تمہارے سامنے

۔۔۔۔۔

ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا

ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانا دل کا

نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا

زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا

کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا

مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا

وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تھاشہ خوشی

دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا

دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے

روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا

ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے

اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا

میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں

بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانا دل کا

وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے

ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا

خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے

زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا

بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں

آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا

نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں

آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا

حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے

لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانا دل کا

لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی

اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا

ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم

دیکھتے رہ گئے ہم ، ہاتھ سے جانا دل کا

۔۔۔۔۔۔

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی

ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں

میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے

تری انجمن میں اگر نہیں، تری انجمن کا قریں سہی

ترا   در تو ہم کو نہ مل سکا، تری رہگزر کی زمیں سہی

ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے

مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے

جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

۔۔۔۔۔

کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا

میں چلوں حشر میں کہتے ہوئے جاناں جاناں

۔۔۔۔۔

رازِ ہستی کو سمجھنا نہیں کارِ آساں

نہ کُھلا ہے نہ کُھلے گا یہ قضا سے پہلے

                                                                            

مُجھ سے پُوچھے کوئی کیا مُجھ پہ جُنوں میں گُزری

قیس و فرہاد کے قِصّے تو ہیں افسانے سے

                                                                            

اس انجمن کی فضا میں رہ کر ، سکون کیوں کر رہے میّسر

ابھی تو وہ آزما رہا ہے ، ابھی تو یہ دل عتاب میں ہے

                                                                            

ستم کہیئے ،کرم کہیئے ،وفا کہیئے ،جفا کہیئے

عجب اُن کی ادائیں ہیں جو کہیئے بھی تو کیا کہیئے

                                                                            

میرا انداز نصیر اہل جہاں سے ہے جدا

سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں