علامہ شبلی نعمانی کا یوم وفات

پوچھتے کیا ہو جو حال ِشبِ تنہائی تھا

رُخصتِ صبر تھی  یا  ترکِ شکیبائی تھا

نام       : محمد شبلی

تخلص  : شبلی

ولادت  : 03/ جون  1857ء  اعظم گڑھ ہندوستان

وفات   : 18/ نومبر  1914ء  اعظم گڑھ   بھارت  

آج یعنی  18 نومبر   کو اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں، عظیم مورخ، عالم دین، سیاسی مفکر اور فارسی شاعر، اپنی تنقیدی کتاب شعرُ العجم کے لئے مشہور شمس العلماء،علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ    کا 107 واں یومِ وفات ہے۔

محمّد شبلی نام تھا  ،شبلیؔ تخلص کرتے تھے ۔موضع بنڈول، ضلع  اعظم گڑھ میں 3؍جون 1857ء کو پیدا ہوئے ۔بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی ۔کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے۔ ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلم بند کیا۔ ندوۃ العلما کو قائم کیا ۔ندوۃ المصنفین انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے، جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور  قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں ،

حکومت برطانیہ نے انہیں شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا ۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے  کہ سرسید احمد خاں ، مولانا حالی ، مولانا شبلیؔ نعمانی اور شاعر مشرق علامہ اقبال جیسی ادبی شخصیتیں صدیوں میں ایک بار ہی پیدا ہوتی ہیں اور ادب میں اپنے ایسے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں، جنھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔

 

جنگ بلقان میں جب ترکوں پر مصیبت آپڑی تو مولانا کے اندر کا انقلابی شاعر جاگ اٹھا اور انہوں نے ایک مرصع نظم لکھی جو بے حد مشہور ہوئی ۔

کہاں تک لوگے ہم سے انتقامِ فتحِ  ایّوبی

دکھاؤگے ہمیں جنگِ صلیبی کا سماں کب تک

علامہ شبلی کی شاعری کا دور اگردیکھا جائے تو صاف نظر آئےگا کہ یہ وہ دور ہےجس میں ہندوستان اندرونی  اور بیرونی طور پر آزمائش اور ابتلاء کے دور سے گزر رہا تھا ۔اسی زمانہ میں آپ کی شاعری پر قومی اور سیاسی شاعری کی چھاپ زیادہ نظر آتی ہے ۔مسلمانوں کے مسائل کے حل میں آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اور آپ نے شاعری کے ذریعہ ان مسائل کی اہمیت کو عام لوگوں میں اجاگر کرنے میں اہم کردار  ادا کیا ۔سیاسی اور سماجی مسائل کے حل میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ پہلے سامنے آتا ہے ۔لیکن طبقہ علماء،  جو قدیم نظام د رس سے موسوم کئے جاتے ہیں ،اگر جائزہ لیا جائے اور حقیقت پسند انہ نظروں سے دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو استحکام دلانے اور ان کی حیثیت عرفی کو قائم رکھنے میں علماء کا طبقہ ہی پیش پیش ہے۔ با لخصوص علامہ شبلی نعما نی کا نام ان لوگوں میں سرِ فہرست ہے جنہوں نے مسلمانوں کو فرقہ واریت کے دلدل سے باہر نکا لا۔ اگر ہم علامہ شبلی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ان کی چند اصلاحی نظمیں اور اکثر قومی و سیاسی نظموں سے ان کی شخصیت کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں اور اسی سے ان کے ذہن و فکر کے کئی گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔   علامہ شبلی کی شاعری کے موضوعات میں جذباتیت نہیں نظر آتی، اگرچہ یہ موضوعات تقاضہ وقت اور سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں۔

بحوالہ تنقیدی اشارے۔ از آل احمد سرورص:۲۱۶

کاروان علی گڑھ از سید محمد ہاشم ص: ۱۰۳

جہاں تک شبلی کی شاعری اور اس کی ادبی وفنی قدر و قیمت کا سوال ہے ،  ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد حسین آزاد اور خوا جہ الطاف حسین حالی کے بعد اردو میں قومی شاعری کو حقیقی جذبات اور شور انگیز طرزِ  ادا  فارسی کی نغمگی  اور لطافت سے روشناس کرانے کا سہرا شبلی کے سر ہی جاتا ہے ۔مذہبی اور اخلاقی شاعری کے سلسلے میں بھی ان کا مقام بڑا ہی بلند ہے ۔ اسلوب کی رنگینی ، بحر اور وزن کی ترنم آفرینی ،ردیف اور قافیے کی شگفتگی ،یہ سبھی ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں ،جن کی بدولت ان کی شاعری شادابی اور جاذبیت سے لبریز ہوئی۔

اگر ہم کلام شبلی کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں جابجا شبلی کے کردار کی معصومیت، سچائی ،  بے ریائی اور کھرے پن کے ثبوت ملتے ہیں مگر جلد ہی ان کے کلام میں ان کے کردار کا دوسرا رخ بھی سامنے آجاتا ہے، جو  شبلی کے کمال فن کی دلیل ہے کہ انہوں نے پردۂ ادب کے لئے جس کردار  کا بھی انتخاب کیا اسے بخوبی نبھایا ہی نہیں بلکہ اسے بام عروج تک پہنچا  دیا ۔علامہ شبلی نعمانی صاحب  جہاں ایک طرف ایک بلند پایہ عالم دین اور اسلامی غیرت اور حمیت کے علمبردار تھے، وہاں وہ مزاجی اعتبار سے نہایت خوش اخلاق، خوش مذاق اور حسن و جمال کے دلدادہ تھے۔ ان کی خوش مذاقی اور حسن و جمال کی دلدادہ د ہی غالباً کچھ دوسرے اسباب کے ساتھ ایک چنگاری بنی ،جو آگے چل کر بمبئی کی نرم و گداز اور رومان پرور فضاؤں میں اچانک دہک اٹھی تھی ۔علامہ شبلی نے فارسی زبان میں جو شاعری پیش کی وہ بہت شائستہ، ذوق و شوق اور فارسی شعرا کے گہرے اور عمیق مطالعہ کی آئینہ دار  ہے ۔

شبلی نے فارسی زبان میں غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف شاعری پر بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی فارسی غزلیں لطافت و بلاغت میں بے مثال اور بلاشبہ فارسی ادب کا گراں بہا سرمایہ ہیں۔

 ان کی  چند مشہور تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں ۔ شعرالعجم (5 جلدوں میں) ، موازنہ انیس و دبیر ، الفاروق ، المامون،  سیرت النعمانی ، الغزالی،  سوانح مولانا روم، علم الکلام، الکلام الجزیہ،  فلسفہ اسلام ،سفر نامہ روم و شام و مصر،  حیات خسرو ،سیرت النبیؐ ، دیوان شبلی وغیرہ۔شعرالعجم پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ہے۔ الماموں، سیرۃ النعمان ،سوانح مولانا روم ،الغزالی ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ہے ، آپ کی سب سے آخری تصنیف سیرۃ النبیﷺ  ہے جو ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے

 علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے ۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیے  ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ان کے ان ہی ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ مجیدی کے پروقار اعزاز سے نوازا۔ ، آپ کا 18نومبر 1914ء کو انتقال ہوا ،اور آپ  اعظم گڑھ ،اتر پردیش ، ہندوستان میں محو خواب ہیں ۔ مگر مولانا شبلی علیہ رحمہ کے علمی کارنامے  اور  اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے.