برصغیر میں فارسی کے عظیم شاعر

شیخ غلام قادر گرامی بیسویں صدی عیسوی  میں  پاک و ہند کے فارسی کے نمایاں شاعر تھے۔اپ مشرقی پنجاب کے مردم خیز شہر جالندھر میں 1856 میں پیدا ہوئے۔ان کے والد شیخ سکندر بخش متو سط طبقے کے تاجرتھے۔جالندھر کے قریب بستی دانش منداں  میں خلیفہ ابراہیم کے مدرسہ میں تعلیم پائی ۔دوران تعلیم ہی ان کے شاعرانہ جوہر کھلنا شروع ہوئے۔پھر لاہور آ کر  اورینٹل کالج میں داخل ہوئے۔ان کے اساتدہ میں محمد حسین آزاد اور علامہ عبد الحکیم کلانوری جو کالج کے رسالہ درفش کاویانی کے ایڈیٹر تھے ،شامل ہیں۔منشی فاضل کے بعد وکالت کا امتحان پاس کیا۔اپنی شاعرانہ طبیعت کی وجہ سے وکالت کی بجائے امرتسر میں معلم ہوگئے ۔اس سے اکتاکر مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے حیدر آباد دکن پہنچے اور نظام دکن میر محبوب علی خان  کے  دربار میں منسلک ہوئے اور ملک الشعراء کے منصب پر فائز ہوئے۔

گرامی، علامہ اقبال کے بے تکلف دوست تھے اور علامہ ان کی بڑی قدر کرتےتھے۔لاہور آتے تو علامہ کے ہاں ہفتوں قیام رہتا۔شاہنامہ اسلام کے مصنف اور پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق حضرت حفیظ جالندھری اور  روزنامہ انقلاب کے مولانا عبد المجید سالک ان کے شاگرد ہیں۔ گرامی 1927 میں فوت ہوئے۔۔فنا فی ا لشعر تھے۔ ان کی نعت کے کچھ اشعار۔

بگیرم دامنِ آں  سیدِ  لولاک در محشر

کہ محشر بر نتا بد تاب حسنِ بے حجابش را

شبے در خانہ زیں آں امام ِانبیاء( ص )امد

قضا گیرد عنانش را قدر گیرد رکابش را

قضا گیرد ,قدر گیرد ازل گیرد ابد گیرد

رکابش را عنانش را عنانش را رکابش را

سوار برق شد ماہے فلک امد عنان گیرش

رکابش بوسہ پر پازد فلک بوسد رکابش را

گرامی در قیامت آں  نگاھی مغفرت خواہد

کہ در آغوش گیرد جرم ہائے بے حسابش را