میں ہوں ایسے بکھرا سا
میں ہوں ایسے بکھرا سا
جیسے خواب ادھورا سا
دور دور تک پھیلا ہے
یادوں کا اک صحرا سا
بے شک آپ نہیں آتے
کر دیتے کوئی وعدہ سا
غم سے آنکھیں بوجھل ہیں
دل بھی ہے کچھ بکھرا سا
میں اس کی نظروں میں ہوں
کاغذ کا اک ٹکڑا سا
عقل و جنوں میں رہتا ہے
کوئی نہ کوئی جھگڑا سا
ان سے دل کی بات کہی
بوجھ ہوا کچھ ہلکا سا
اڑی اڑی سی رنگت ہے
ہر کوئی ہے سہما سا
اس کو حق ہے جو بھی کرے
وہ ہے میرا اپنا سا
میرا یہی اثاثہ ہے
اک دل وہ بھی ٹوٹا سا
آپ تو چپ سے رہتے ہیں
میں ہوتا ہوں رسوا سا
عرشؔ نگاہوں میں اکثر
لہرائے اک سایا سا