یہ آئنہ تھا مگر غم کی رہ گزار میں تھا
یہ آئنہ تھا مگر غم کی رہ گزار میں تھا
اٹا ہوا مرا دل درد کے غبار میں تھا
قدم قدم پہ کئی رنگ کے تھے ہنگامے
عجیب لطف ستم ہائے روزگار میں تھا
نہ کر سکا میں فراموش اس کی کوئی بات
مرا خیال کہ یہ میرے اختیار میں تھا
جنوں کے دشت میں پیہم بھٹک رہا تھا دل
مگر یہ ذہن حقائق کے کارزار میں تھا
گرا جو پلکوں سے اک اشک کہہ گیا سب کچھ
کہاں فسانے میں جو لطف اختصار میں تھا
کھلے ہوئے تھے کئی مصلحت کے دروازے
مگر یہ دل تھا کہ ڈوبا ہوا وقار میں تھا
کسے پکارتے ہم راہ زندگی میں عرشؔ
ہر ایک شخص خود اپنے ہی انتظار میں تھا