زندگی کچھ سوز ہے کچھ ساز ہے

زندگی کچھ سوز ہے کچھ ساز ہے
دور تک بکھری ہوئی آواز ہے


خامشی اس کی ہے مثل گفتگو
ہر نظر جذبات کی غماز ہے


کس طرح زندہ ہوں تجھ کو دیکھ کر
زندگی مجھ پر تبسم ساز ہے


جاں فزا نغمات کا خالق ہے یہ
دل اگرچہ اک شکستہ ساز ہے


اس طرح قائم ہے رقص زندگی
ساز اس کا ہے مری آواز ہے


کیا بتاؤں آج کے اس دور میں
آدمی کتنا زمانہ ساز ہے


اس لیے رکھتا ہوں میں اس کو عزیز
حق پرستی روح کی آواز ہے


باختن ہے پتھروں کی سرزمیں
پھر بھی مجھ کو اس پہ کتنا ناز ہے


منزل مقصود تک پہنچے گی عرشؔ
رک نہ پائے گی مری آواز ہے