ان کی بھی شرارت تو دیکھو ہم کو ہی کہو گے دوشی کیا

ان کی بھی شرارت تو دیکھو ہم کو ہی کہو گے دوشی کیا
برداشت سے باہر ہو جائے تو اوڑھے کوئی خموشی کیا


جو اپنی ذات میں خود سر ہیں کیا ان کا ضمیر جھنجھوڑے کوئی
ظاہر پر کان نہ دیں جو انہیں باطن کی بھلا سرگوشی کیا


دنیا کی بنائی رسم ہے یہ جو ہم کو نبھانی ہے ورنہ
نازاں جس پر خود گلشن ہو اس گل رخ کی گل پوشی کیا


اصرار نہ کر اے ساقی تو یہ ساغر و مینا دور ہٹا
جس دل پہ غموں کا قبضہ ہو اس پر چھائے مدہوشی کیا


کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر حیران و پریشاں ہوتے ہو
بیدار اگر ہے روح تو پھر ذہن و دل کی بے ہوشی کیا


جس دن تو کہے گا میں اس دن صحرا کی جانب چل دوں گا
جو جان لٹاتا ہو تجھ پر اسے خوف خانہ بدوشی کیا