عمر تھوڑی ہے اور کام بہت

عمر تھوڑی ہے اور کام بہت
زندگی بھی ہے تیز گام بہت


آ تو پہنچے ہیں اپنی منزل پر
ہاں مگر ہو گئی ہے شام بہت


طائر دل کی سب نظر میں ہے
یوں تو پھیلے ہوئے ہیں دام بہت


عمر بھر کیف کم نہیں ہوتا
پینے والے کو ایک جام بہت


پینے والوں کا ظرف ہے درکار
شیشہ ساقی صراحی جام بہت


دور جمہور میں بھی اے قیصرؔ
لوگ کرتے ہیں کیوں سلام بہت