کسی کا ہاتھ دامن پر کسی کا سر گریباں میں
کسی کا ہاتھ دامن پر کسی کا سر گریباں میں
یہ دیوانے بھی گل چھرے اڑاتے ہیں بیاباں میں
سما کر رہ گیا ہر ان کا جلوہ قلب سوزاں میں
کہاں سے اتنی وسعت آ گئی اس تنگ داماں میں
سلیقہ خاک اڑانے کا بڑی مشکل سے آتا ہے
بگولے سر پٹک کر رہ گئے آخر بیاباں میں
ہنسی کلیوں کے لب پر ہے قبائے گل کے ٹکڑے ہیں
سبھی پر چھا گئی دیوانگی اب کے گلستاں میں
قریب آیا زمانہ جب بھی عہد گل کی رخصت کا
الجھ کر رہ گیا دست جنوں تار گریباں میں
سویدا بت کدہ ہے دل حرم نظریں پجاری ہیں
یہاں تفریق بھی کچھ ہے تو یہ ہے کفر و ایماں میں
اقامت کے لیے کیا وسعت کونین کچھ کم تھی
عبث انگڑائی لی تم نے دل نظارہ ساماں میں
جو آنکھوں سے لگائے گل تو کانٹے رکھ لئے دل میں
مجھے دونوں ہی سے قیصرؔ علاقہ تھا گلستاں میں