عمر بھر جس کی محبت میں گرفتار رہی

عمر بھر جس کی محبت میں گرفتار رہی
اس کو دیوار کیا خود پس دیوار رہی


آنکھ لگ جائے تو پھر آنکھ کہاں لگتی ہے
میں اگر سو بھی گئی خواب میں بیدار رہی


تیرگی سے مرا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا
میں ہمیشہ سے چراغوں کی طرف دار رہی


باغبانوں کو پشیمانی اسی بات کی ہے
میں خزاؤں کے دنوں میں بھی ثمر بار رہی


تو تو کم حوصلہ مت جان مجھے اے دنیا
تجھ سے تو ہر گھڑی میں برسر پیکار رہی


میرے چہرے پہ تبسمؔ کی حقیقت نہ کھلی
میں زمانے کے لئے کتنی پر اسرار رہی