خواہش وصل تو بیکار نہیں کر سکتا

خواہش وصل تو بیکار نہیں کر سکتا
وہ مری دید سے انکار نہیں کر سکتا


ایک میں ہوں کہ تجھے پیار بہت کرتی ہوں
ایک تو ہے کہ یہ اقرار نہیں کر سکتا


وقت سے آگے نکلنے کی تمنا ہے مجھے
تیز تو پاؤں کی رفتار نہیں کر سکتا


تو مرے پیار میں دعوے تو بہت کرتا ہے
برملا پیار کا اظہار نہیں کر سکتا


کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن وہ مرا دشمن جاں
پیٹھ پیچھے وہ کبھی وار نہیں کر سکتا


دیکھ سوہنی کی طرح تجھ کو بھی دے گا یہ دغا
یہ گھڑا تجھ کو ندی پار نہیں کر سکتا


جو مجھے روز یہ کہتا ہے تبسمؔ ہے مری
وہ مرا دامن دل تار نہیں کر سکتا