اک لمحۂ وصال سے آگے نکل گئی
اک لمحۂ وصال سے آگے نکل گئی
میں خواہشوں کے جال سے آگے نکل گئی
چہرے پہ اس کے رنج کے آثار دیکھ کر
چپ چاپ ہر سوال سے آگے نکل گئی
کچھ میں بھی نا شناس تھی اس کار خیر میں
ہر رنج ہر ملال سے آگے نکل گئی
ایسے غم حیات نے بانہوں میں لے لیا
میں اپنی دیکھ بھال سے آگے نکل گئی
کچھ دن ترے وصال نے مدہوش کر دیا
میں خواہش مآل سے آگے نکل گئی
تو بھی مرے وجود سے آزاد ہو گیا
میں بھی ترے خیال سے آگے نکل گئی