نیند میری ہے خواب لوگوں کے

نیند میری ہے خواب لوگوں کے
ہیں مرے سر عذاب لوگوں کے


مفلسی کے کھنڈر سے اے مرے دل
چل نکالیں شباب لوگوں کے


گلستاں کو لہو سے سینچوں گی
تب کھلیں گے گلاب لوگوں کے


اپنی قسمت میں ٹوٹے تارے ہیں
ماہتاب آفتاب لوگوں کے


اک طرف التفات ہے تیرا
اک طرف اضطراب لوگوں کے


یوں ہی پہنچی نہیں میں دار تلک
میں نے الٹے نقاب لوگوں کے


اپنی اپنی ہیں درس گاہیں یہاں
اپنے اپنے نصاب لوگوں کے