الٹی پڑتی ہے ہر اک کام کی تدبیر عبث

الٹی پڑتی ہے ہر اک کام کی تدبیر عبث
مجھ سے برگشتہ ہوئی ہے مری تقدیر عبث


جو مقدر میں لکھا ہے نہیں مٹنے والا
آہ بیکار ہے اور نالۂ شبگیر عبث


کوئی باقی نہیں فریاد کا سننے والا
شور کرتی ہے مرے پاؤں کی زنجیر عبث


شوق کہتا ہے مرا مجھ سے جو ہونا ہے وہ ہو
قتل کرنے میں ہے جلاد کو تاخیر عبث


کہہ دیا عقدۂ تقدیر کا کھلنا دشوار
دل سمجھ لے خلش ناخن تدبیر عبث


آپ کچھ مجھ سے اب اے حضرت ناصح نہ کہیں
گفتگو آپ کی بیکار ہے تقریر عبث


جانستاں تیر نظر یوں بھی ہے اس کا مسعودؔ
کھینچتا ہے وہ مرے قتل پہ شمشیر عبث