غم الفت ہے سبب خلق میں رسوائی کا
غم الفت ہے سبب خلق میں رسوائی کا
نام بدنام ہوا کیوں شب تنہائی کا
ٹکڑے ٹکڑے ہے جگر آپ کے سودائی کا
سامنا آج بھی ہے حشر میں رسوائی کا
موت آتی ہے نہ امکاں ہے شکیبائی کا
آگ لگ جائے برا ہو شب تنہائی کا
دل کے ٹکڑے نہ کرو حسن کی زینت ہے یہی
آئنہ ٹوٹا تو کیا لطف خود آرائی کا
پڑ گئی اہل قیامت کی گریباں پہ نظر
چھڑ گیا حشر میں قصہ مری رسوائی کا
پھر کشش نے در محبوب کی کھینچا دل کو
پھر ہوا ذوق ہمیں ناصیہ فرسائی کا
گھٹتی جاتی ہے چراغ دل سوزاں کی ضیا
بڑھتا جاتا ہے اندھیرا شب تنہائی کا
کیوں نہ انسان ہو مشتاق طلسم دنیا
دل بہلتا ہے تماشے سے تماشائی کا
چھا گئی ظلمت غم دل پہ خدا خیر کرے
آ گیا چاند گہن میں شب تنہائی کا
حالت نزع ہے دم توڑ رہا ہے بیمار
ناتوانی میں یہ عالم ہے توانائی کا
کر چکے آپ ہمارا دل مردہ زندہ
ساتھ عیسیٰ کے گیا دور مسیحائی کا
آنکھ میں موت کی پھر جاتی ہے صورت اب تک
بخدا نام برا ہے شب تنہائی کا
خیر اتنا تو ہوا مشق جفا سے حاصل
آ گیا تم کو سلیقہ ستم آرائی کا
آج ہے کل سے غنیمت یہ سنا جاتا ہے
دور از حال مزاج آپ کے سودائی کا
لے گیا حسن خداداد بتوں کا مسعودؔ
مقدرت صبر کی امکان شکیبائی کا