سودا ہوا ہے جس کو رخ زلف یار کا
سودا ہوا ہے جس کو رخ زلف یار کا
کیا خوف اس کو گردش لیل و نہار کا
کیا پوچھتے ہو حال دل بے قرار کا
دھڑکا لگا ہوا ہے غم روزگار کا
پھر دیکھیے نہ ایک بھی وعدہ وفا ہوا
پھر اعتبار کچھ نہ رہا اعتبار کا
نیت کسی کی مائل جور و جفا تو ہو
گھٹ جائے طول ابھی ستم روزگار کا
اے برق طور کب کی تھی موسیٰ سے دشمنی
دکھلا دیا جو رنگ دل بے قرار کا
پھر آگیا ہے جور کا شاید انہیں خیال
پھر بڑھ چلا ہے ظلم و ستم روزگار کا
پیری میں بھی شباب کی باتیں ضرور ہوں
حاصل ہو لطف کچھ تو خزاں میں بہار کا
مسعودؔ ناز انہیں ہے درازیٔ زلف پر
دیکھا نہیں ہے طول شب انتظار کا