دیکھ کر داغ دل روشن کو ہم

دیکھ کر داغ دل روشن کو ہم
بھول بیٹھے لالۂ گلشن کو ہم


اب ترا دامن ہے اور دست جنوں
چھوڑتے ہیں اپنے پیراہن کو ہم


ہو گئے پابند تسلیم و رضا
اب جھکائے رکھتے ہیں گردن کو ہم


جس کے ناوک سے ہوا دل کا شکار
بھولیں کیونکر ایسے تیر افگن کو ہم


گرد غم جب سے کہ بیٹھی ہم نشیں
مدتوں جھٹکا کئے دامن کو ہم


ہم صفیرو بس یہی قسمت میں تھا
روئے گلشن ہم کو اور گلشن کو ہم


عشق سے مسعودؔ عاجز ہو چکے
اب نہ دیں گے دل کسی پر فن کو ہم