غیر ادھر لطف و کرم سے محظوظ

غیر ادھر لطف و کرم سے محظوظ
ہم ادھر ظلم و ستم سے محظوظ


ہے خوشی پر تری موقوف خوشی
کیوں نہ ہوں رنج و الم سے محظوظ


بیٹھنے والے تری محفل کے
ہوں گے کیا باغ ارم سے محظوظ


زندگی سے مری دنیا عاجز
ایک عالم ترے دم سے محظوظ


آسماں پر ہے دماغ واعظ
آج آیا ہے حرم سے محظوظ


نار دوزخ سے بچائیں گے یہی
کیوں نہ ہوں دیدۂ نم سے محظوظ


کم ہیں اللہ کے بندے ایسے
جو نہ ہوں جاہ و حشم سے محظوظ


مجھ کو غم عین خوشی ہو جائے
آپ ہوں تو مرے غم سے محظوظ


جاتے ہیں ہو کے عدم کو غمگیں
آتے ہیں لوگ عدم سے محظوظ


کبھی ہنسنا کبھی رونا دھونا
بے خودی ہی شب غم سے محظوظ


ہم تو مسعودؔ رہے دنیا میں
دیر سے شاد حرم سے محظوظ