الجھا اس کی دید میں

الجھا اس کی دید میں
پڑا رہا تمہید میں


بھول گیا اس بار بھی
اثر نہیں تاکید میں


سیکھا من کو مارنا
افسر کی تائید میں


رہنا پل پل دھیان میں
ملنا عید کے عید میں


نامہ بر لکھوائے گا
تجھ سے نام رسید میں


اس کی شکل اتار لوں
گر آ جائے کشید میں


کانچ تراشوں بیٹھ کر
ہیرے کی تقلید میں


ڈھونڈ خدا انسان سے
مرشد دیکھ مرید میں


صفر انا کو مان کر
مٹ جاؤ توحید میں


مجھے مصور مل گیا
چھپا ہوا تجرید میں


ڈھالا ایک جنون نے
قطرہ مروارید میں


کچھ بے ہمت دھرتیاں
جڑی رہیں خورشید میں


کیوں آتا ہے لوٹ کر
وہی قدیم جدید میں


واحد کو اصرار ہے
کیوں اتنا توحید میں