اکتا کے کوئے یار سے عشاق چل پڑے

اکتا کے کوئے یار سے عشاق چل پڑے
کار وفا کے دیکھیے مشتاق چل پڑے


میں اٹھ گیا تو درد کی محفل اجڑ گئی
میرے ہی ساتھ عشق کے مشاق چل پڑے


نقش قدم پڑے ہیں یہ قدرت کے جا بجا
دنیائے دل سے اٹھ کے بد اخلاق چل پڑے


برگ حنا سے لکھ کے نصیحت زمین پر
گلشن کو تیرے چھوڑ کے اوراق چل پڑے


رشتوں کے احترام کی جن کو نہ تھی تمیز
دامن میں اپنے باندھ کے آفاق چل پڑے


تیری نگاہ ناز نے ایسا فسوں پڑھا
دیوانے ہو کے دنیا سے اشفاق چل پڑے


میں نے چراغ عشق جلائے تھے جو ندیمؔ
ہم راہ میرے چھوڑ کے سب طاق چل پڑے