عشق کی راہ میں جو دار و رسن ہے کیوں ہے

عشق کی راہ میں جو دار و رسن ہے کیوں ہے
سر کٹانے کی ہر اک دل میں لگن ہے کیوں ہے


جس کی خوشبو سے معطر ہیں وفا کی راہیں
میرے سینے میں وہ زخموں کا چمن ہے کیوں ہے


جس میں لکھی ہے تواریخ کئی صدیوں کی
وقت کے سر پہ پڑی ایسی شکن ہے کیوں ہے


کیا اسے عشق سے محروم رکھا قدرت نے
شمس کے سینے میں جو اتنی جلن ہے کیوں ہے


مجھ پہ بندش یہ کہ اس پر میں غزل بھی نہ کہوں
گل بدن ہے وہ اگر غنچہ دہن ہے کیوں ہے


مجھ سے پوچھو نہ سبب میں نہ بتا پاؤں گا
اس سے ملنے کا اگر میرا یہ من ہے کیوں ہے


اس کو معلوم ہیں دنیا کی مثالیں لیکن
عشق کے صحرا میں جو دل کا ہرن ہے کیوں ہے


کتنا مغرور تھا وسعت پہ جو اپنی لیکن
میرے اک نقش قدم پر وہ گگن ہے کیوں ہے


جس کے پڑنے سے ندیمؔ اپنا بدن کھل جائے
عشق کی لو میں بھلا ایسی کرن ہے کیوں ہے