بھنور سے بچ کے وہ ساحل کے پاس ڈوب گیا
بھنور سے بچ کے وہ ساحل کے پاس ڈوب گیا
جہاں کا دیکھ کے خوف و ہراس ڈوب گیا
عجب سے خوف میں لپٹا ہے گاؤں کا پنگھٹ
سنا ہے پھر سے کوئی دیوداس ڈوب گیا
مجھے شراب ہی اتنی ملی تھی دنیا سے
کہ مارے شرم کے میرا گلاس ڈوب گیا
گوارہ ہو نہ سکا اس کو بحر کا احسان
لبوں پہ لے کے قیامت کی پیاس ڈوب گیا
کہوں تو کس سے کہوں اپنے دل کی تکلیفیں
مرے ہی غم میں مرا غم شناس ڈوب گیا
ہوا جو سامنا سورج کا میرے زخموں سے
فلک پہ چھوڑ کے اپنا لباس ڈوب گیا
ندیمؔ اپنے غموں سے نکل چکا تھا مگر
غم جہان سے ہو کر اداس ڈوب گیا