اکھڑے ہوئے پاؤں
جوالا مکھی پھٹ پڑی تھی۔
آگ، گرد اور اڑتی ہوئی چٹانیں، وہ بھاگتی رہی، اڑتی ہوئی چٹانوں سے خود کو بچاتی رہی، مگر اس کے چاروں طرف آہنی دیواریں تھیں اور سر پر آگ، گرد اور چٹانیں، وہ لہولہان ہوگئی، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے، سانس گردا گئی ، بڑھتی ہوئی حدت سے اس کا وجود جھلسنے لگا۔ مگر اس نے شکست نہیں مانی، وہ خود کو آخری سانس تک جدوجہد کے لئے تیار کرچکی تھی، مگر اس کے پرتھک گئے تھے، پرواز محدود ہوگئی تھی، تب ہی چوٹی سے ایک بڑی چٹان لڑھکی، اس نے بچنے کے لئے پرتولے مگر وہ چٹان تو کسی عقاب کی طرح جھپٹی تھی اور وہ کسی ننھی سی چڑیا کی طرح اس کی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔
صبح گھر پہنچی تو ساڑی چیتھڑا بن کر اس کے بدن پر جھول رہی تھی۔ سامنے سے بلاؤز بری طرح پھٹا ہوا تھا اور بریشیر کے ٹکڑے تو شاید وہی پلنگ پر رہ گئے تھے، چہرے کی گہری گہری خراشوں سے خون رس رہا تھا۔ چھاتیوں پر دانتوں کے نشانات تھے اور وہ اس طرح ڈگمگاتی ہوئی گھر پہنچی تھی جیسے تمام رات جلتے سنگریزوں پر چلتی رہی ہو۔
ماں نے جلدی سے بستر کی چادر اس پر ڈال دی اور بھائی نے لپک کر بندوق اٹھالی۔
کس نے۔۔۔ کس نے۔۔۔ راکیش؟
نہیں، وہ پھپھک کر رو پڑی۔ وہ تو منع کر رہے تھے کہ تنہا مت جاؤ مگر بس والا جان پہچان کاتھا اس لیے۔۔۔ جب میں رکشہ سے آرہی تھی تو بڑے باغ کے پاس اندھیرے میں۔۔۔
میں اس کمینے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا، میرے ہوتے ہوئے میری بہن پر۔۔۔
پاگل ہوئے ہو، ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اس طرح بات پھیلے گی اور رجنی کی زندگی برباد ہوجائے گی۔
مگر وہ پاگل ہوگیا تھا۔ غصے کی آگ عقل کا ایندھن بن چکی تھی اور سب کچھ جلاکر خاکستر کردینا چاہتی تھی، میرے ہوتے میری بہن پر۔۔۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا، اپنی بہن کا انتقام لوں گا، اسے کتے کی موت ماروں گا، گھسیٹ گھسیٹ کر، سسکا سسکا کر۔
مگرا سے کمرے میں بند کردیا گیا، مجھے چھوڑ دو، میں انتقام لوں گا، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا، وہ چیختا رہا، اور جب چیختے چیختے تھک گیا تو پھوٹ پھوٹ رونے لگا۔
اس دن رجنی کو تیز بخار رہا، اسے کچھ یاد نہیں کہ ماں نے کب اس کے کپڑے تبدیل کئے، کب زخموں پر مرہم لگایا، کب بھائی کا کمرہ کھولا گیا، دوسرے دن اس نے آنکھیں کھولیں تو ماں کی آنکھوں میں خوف کی بدلیاں خیمہ زن تھیں، بھائی کی آنکھوں میں قہر کی بجلیوں پر اندیشے کے سائے تھے اور گھر میں ایسا سناٹا تھا جیسے کچھ دیر پہلے کسی کی میت دفنائی گئی ہو، دروازے پر کڑا پہرا تھا، آوازوں پر سخت سنسر شپ اور دل میں وہم کی کائی۔
اگر یہ بات پھیل گئی تو ؟
راکیش کو معلوم ہوگئی تو؟
بھائی اپنے ہاتھوں کو دیکھتا، یہ ہاتھ کٹے ہوئے کیوں نہیں ہیں کہ دل کو قرار آجاتا یا پھر یہ ہاتھ خون میں ڈوب کر اپنی پیاس بجھالیتے اور میں ان لہو لہو ہاتھوں کو رجنی کو دکھا کر قمر سے کہتا، یہ اسی عفریت کا خون ہے جس نے تجھ پر بری نظر ڈالی تھی۔۔۔ تب آنکھوں میں یہ پشیمانی تو نہ ہوتی، مگر یہ ہاتھ اس طرح دبے ہوئے ہیں کہ ۔۔۔
ہفتوں گھر میں دھواں بھرا رہا جس میں ایک دوسرے کی صورتیں بھی صاف نظر نہیں آتی تھیں، حرکت کرتے ہوئے سائے، ہونٹوں پر لگا ہوا قفل ، آنکھوں میں تشویش کے سائے اور د ل میں ویرانی، مگر اندر کالی آندھی سر پٹک رہی تھی۔
جو کچھ ہوا بہت برا ہوا، کیا اس پر ماہ و سال کی گرد جم کر اسے مٹا سکے گی یا یہ داغ ساری زندگی جلتا رہے گا۔ رجنی کی آنکھوں کے سامنے آگ کا صحرا تھا جس میں پھولوں سے ڈھکا ہوا ایک چھوٹا سا گھر جل رہا تھا اور اس جلتے ہوئے گھر کے ایک کمرے میں راکیش بے چینی سے ٹہل رہا تھا، شعلے اپنی سرخ زبانیں نکالے کھڑکیوں اور دروازوں سے اپنی طرف بڑھ رہے تھے، شعلوں کی لپیٹ میں جو ہی اور بیلے کی لتیں جلھس رہی تھیں، کیاریوں میں بہتا ہوا پانی سوکھ رہا تھا، گلاب کے پودے مرجھا رہے تھے، دھواں اٹھ رہا تھا۔
راکیش چیخ رہا تھا، شعلے اس کے کپڑوں سے چمٹ گئے تھے۔
نہیں، نہیں، وہ گھبراکر آنکھیں کھولتی تو ماں کو پتھر کی مورت کی طرح اپنے پاس کھڑی پاتی، دونوں کی نظریں ملتیں اور جھک جاتیں اور وہ اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ جاتیں۔
بھول جاؤ، جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ، اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔ ماں کی آنکھیں کہتیں۔
اور وہ چیخ پڑتی۔ کیسے بھول جاؤں ماں، کیسے کہ اب میں راکیش کے لائق نہیں رہی، کیسے اس کا سامنا کرسکوں گی، کیسے اس کی نظریں برداشت کرسکوں گی، کیسے اس سے کچھ کہوں گی، اس کی باتوں کا جواب دوں گی، کیسے اسے پیار کروں گی، اسے جو ٹھا کھانا کیسے کھلاسکوں گی ماں کیسے۔۔۔
اور ماں کی آنکھیں صرف یہی کہتیں۔ بھول جاؤ بیٹی، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
تب وہ آنکھیں بند کرلیتی اور پھر وہی آگ کے صحرا میں جلتا ہوا مکان، جلتا اور چیختا ہوا راکیش اور آگ کے صحرا کے کنارے کھڑی ہوئی ہونٹ کاٹتی ہوئی وہ۔۔۔
یہ آگ میری لگائی ہوئی ہے راکیش، جس میں تم ہی نہیں، میں بھی جل رہی ہوں، تم تو منع کر رہے تھے کہ تنہا مت جاؤ، دو دنوں بعد آفس بند ہوگا تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا مگر میں نے تمہاری بات نہیں مانی، تمہارا مذاق اڑایا۔
تم مجھے ڈرپوک سمجھتے ہو، میں نے تمہارے ساتھ یونی ورسٹی میں پڑھا ہے، ٹور پر گئی ہوں، اسٹیج پر تقریریں کی ہیں، یہ تو چند گھنٹوں کا سفر ہے اور پھر میرا وطن، میرے راستے، میری گلیاں، جہاں میرا بچپن گزرا ہے، جہاں کا ذرہ ذرہ مجھ سے مانوس ہے، جہاں میرا گھر ہے۔
کسی سے ملنے کی جلدی ہے؟
جب شادی سے پہلے کسی سے نہیں ملی تو اب تمہارے علاوہ کس سے ملنے کی جلدی ہوگی۔
تم اپنی رجنی کو اتنی گھٹیا سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری امانت میں خیانت کرے گی۔
مگر تمہاری امانت میں خیانت ہوچکی راکیش، میں مجرم نہیں ہوں، مگر اسے کیسے بھول سکتی ہوں کہ جو جسم تمہارا تھا، جس کے روئیں روئیں پر تمہارے بوسے ثبت تھے، اب وہ جوٹھے ہوچکے ہیں، میں نے خود سے تمہاری جنت میں آگ لگا دی ہے جس میں خود بھی جل رہی ہوں اور تمہارے جلنے کا بھی تماشہ دیکھ رہی ہوں ، ہم دونوں کے درمیان آگ کا صحرائے عظیم ہے، کیسے عبور کروں، کیسے دوڑ کر تمہارے پاس پہنچوں، تمہارے سینے میں منھ چھپاکر آنکھیں بند کرلوں، مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لو راکیش، خود میں جذب کرلو۔
’’بیٹی راکیش کاٹیلی گرام اور خط آیا ہے۔‘‘
ہاں مجھے آئے ایک ہفتہ گزر گیا ، تم پریشان ہو، میری خیریت جاننا چاہتے ہو، تم نے بس ڈرائیور سے بھی پوچھ گچھ کی ہے، مجھے بھول جانے کا طعنہ بھی دیا ہے، مگر میں تمہیں کیا لکھوں، جھوٹی باتیں؟ میں نے آج تک تم سے جھوٹ نہیں بولا، جھوٹ نہیں لکھا، پھر آج میں کیا لکھوں، جھوٹ لکھ کر میں اپنی نظروں میں اور گرنا نہیں چاہتی، اور سچ تم سن نہیں سکوگے تم سے سنانہ جاسکے گا، میں اس خواب کو خواب ہی رہنے دینا چاہتی ہوں کہ ہمارا گھر آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا ہے، میں جل جاؤں گی، فنا ہوجاؤں گی، مگر اپنے گھر، اپنی جنت پر آنچ نہیں آنے دوں گی، خود کو قربان کردوں گی مگر یہ خوف ہے کہ یہ غم تم سے برداشت نہ ہوسکے گا، تم جو میرے بغیر کسی رات کو سکون سے نہیں سوئے، چند دنوں کی جدائی میں خطوں کی زنجیر بنادیتے ہو، تم جو مجھے اتنا چاہتے ہو کہ کسی مرد نے کسی عورت کو نہ چاہا ہوگا، رجنی نے خود کشی کرلی، یہ تم کیسے سن سکوگے، کیسے یقین کروگے اور جب تمہیں خود کشی کی وجہ معلوم ہوگی تو میرا تصور حقیقت بن جائے گا، ہماراپھولوں سے ڈھکا ہوا گھر شعلوں میں گھر جائے گا اور شعلے اپنی لمبی لمبی زبانیں نکالے کھڑکیوں اور دروازوں سےتمہاری طرف بڑھیں گے، تم سے چمٹ جائیں گے اور تم۔۔۔ پھر کیا میری روح کو شانتی مل سکے گی، جب مجھے نہیں دیکھو گے مگر میں اپنی لگائی ہوئی آگ کاانجام دیکھنے کے لئے ہر وقت گھر کے دروازے پر کھڑی رہوں گی، ہاتھ ملتی ہوئی، ہونٹ کاٹتی ہوئی، چیخ چیخ کر روتی ہوئی، تمہیں سمجھاتی ہوئی، تسلی دیتی ہوئی مگر تم مجھے نہیں دیکھو گے،میری بات نہیں سنوگے، میں تمہارے پاس رہ کر بھی بہت دور رہوں گی، تمہاری ہوکر بھی تمہاری نہیں رہوں گی۔
ماں نے کہا کچھ دنوں کے لئے جمشید پور چلو، مالتی نے تمہیں بلایا بھی ہے اور بچوں میں تم گزری باتیں بھول جاؤگی۔
’’یہ سب جھوٹے بہلاوے ہیں ماں، یہ باتیں تب ہی بھول سکوں گی جب راکیش معاف کردے۔‘‘
’’پاگل ہوگئی ہو، کبھی بھولے سے بھی زبان پر مت لانا، تم مردوں کو نہیں جانتیں، یہ اور تو سب کچھ معاف کرسکتے ہیں مگر۔۔۔‘‘
’’مگر میں راکیش سے پوچھے بغیر۔۔۔‘‘
’’تو خط لکھ دو۔‘‘
یہی تو مشکل ہے کہ میں راکیش کو خط نہیں لکھ سکتی، کس منہ سے لکھوں ، کیسے اسے مخاطب کروں، کل کی رجنی صرف راکیش کی تھی، کل تک وہ مغرور تھی، بے باک اور نڈر تھی، پھولوں کی طرح پاکیزہ تھی، مگر آج داغ دار ہوچکی ہے، کل وہ ضد کر کے اپنی باتیں منوا لیتی تھی، روٹھ جاتی تھی اور راکیش اسے سینے سے لگا کر پیار کرلیتا تھا۔ یہ پیار اس کی شکست بھی تھا اور اجازت بھی مگر، آج اس کی حالت اس زخمی چڑیا کی طرح ہے جو چہچہانے کے بجائے دوسروں سے اپنے زخم چھپانے کے لئے، جھاڑیوں میں منھ چھپائے پھرتی ہو، نا اس کے اندر ضد کی سکت تھی، ناپاکیزگی کا غرور اورنہ ہی زخموں کے اعتراف کی طاقت، پھر وہ راکیش سے کیسے پوچھے، پروگرام میں کوئی ایسی بات نہیں تھی، وہ تو صرف ایک ہفتہ کے لئے آئی تھی، اس کی غیر موجودگی میں راکیش کو کتنی تکلیف ہوگی، بھیا کا خط پاکر وہ کتنا پریشان ہوگا۔ آخر میں اپنے ہاتھ سے خط نہیں لکھ رہی ہوں، اپنے آنے کے بارے میں کیوں نہیں لکھتی، اس کے پاس شکایتوں کا ایک دفتر ہوگا، تم نے خط نہیں لکھا، تم وعدہ پر نہیں آئیں، تمہیں میری فکر نہیں ہے، تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے، تم گھر جاکر مجھے بھول جاتی ہو، مگر تمہیں کیا پتہ، تمہارے بغیر میں کسی رات کو ٹھیک سے نہ سوسکا۔ میرے بازو تمہیں بستر پر تلاش کرنے لگتے ہیں، مگر تم۔۔۔ تم۔۔۔
بھائی نے راکیش کو خط لکھا، ماں کی طبیعت خراب ہے، رجنی ابھی یہیں رہے گی، آپ کسی طرح کی فکر نہ کیجئے۔
مگر مالتی کے یہاں بھی اس کا دل نہیں لگا، وہ بچوں پر چڑچڑا جاتی، اور بچے حیران حیران نظروں سے اسے دیکھتے رہ جاتے، رجنی آنٹی تو بہت سی کہانیاں سناتی تھیں، بہت سا پو لیتی تھیں بہت سے چاکلیٹ اور کھلونے لاتی تھیں، مگر۔۔۔
مالنی نے سمجھایا، عورت چاہے کچھ ہوجائے پھر بھی بہت کمزور ہے، شاخ پر کھلے پھول کی طرح، جب سے دنیا بنی ہے ایسا ہوتا آیا ہے کہ بہت سے غلیظ ہاتھ اور نظریں پھول کی طرف بڑھی ہیں اور وہ ہاتھ اور نظریں ہمیشہ بے قصور رہی ہیں۔نہ جانے کیوں پھول توڑ کر بھی، مسل کر بھی، روند کر بھی، ان کا کچھ نہیں بگڑا ہے۔ تمہارے کالج میں کتنی لڑکیاں تھیں، یہاں کتنی ہیں جو شادی سے پہلے مسلا گئیں مگر شوہر کے ساتھ ویسے ہی شگفتہ اور ترو تازہ نظر آتی ہیں، یہ تو احساس کی صلیب ہے چڑھ جاؤ تو بہت کچھ ، نہ چڑھو تو کچھ بھی نہیں۔
جبلی گارڈن میں ہری ہری گھاس پر چلتے ہوئے رنگ بدلتے فواروں کو دیکھتی تو اسے راکیش کی محبت یاد آتی، اس کی محبت میں بھی قوسِ قزح کے رنگ ہیں، روز گارڈن میں کھلے گلابوں کو دیکھتی تو اسے اپنا چھوٹا سا گھر یاد آتا، وہاں بھی تو ایسے ہی پھول بنتے ہیں، ڈمنا لیک گئی تو اسے راکیش کی آنکھیں یاد آئیں، ایسی ہی گہری نیلگوں، ایسی ہی اتھاہ، تب اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی، راکیش کو دیکھتے ہوئے کتنے دن گزر گئے، جیسے صدیاں بیت گئی ہوں، اس کا دل چاہتا وہ اڑ کر راکیش کے پاس پہنچ جائے، اپنے آنسوؤں سے اس کے پاؤں بھگودے، اپنی پلکوں سے اس کے بدن کا بوسہ دے۔
’’ماں گھر چلو، یہاں میرا دل نہیں لگتا، وہاں راکیش کا خط تو آتا ہوگا۔‘‘
مالتی پھپھک کر رو پڑی تو ماں کی آنکھوں پر بندھا ہوا ضبط کا باندھ بھی ٹوٹ گیا، بھائی نے آنکھوں پر رومال رکھ لیا اور رجنی سب کے سامنے پہلی بار اس طرح روئی تھی۔
گھر پر راکیش کے کئی خط رکھے ہوئے تھے۔ آخری خط میں اس نے آنے کی اطلاع دی تھی۔
آج راکیش آجائے گا، دو بجے دن کی بس شام کے چھ بجے یہاں پہچا دے گی، وہ مجھ سے نہیں بولے گا، میری طرف نہیں دیکھے گا، ماں سے دنیا جہان کی باتیں کرے گا، سب کے ساتھ کھانا کھائے گا، جب وہ مجھ سے ناراض ہوتا ہے تو یہی کرتا ہے، اپنے ہونٹ اور نظریں میری طرف سے بند کردیتا ہے، اس کی خموشی میں کتنی شکایتیں رہتی ہیں، مگر جب میں اس کے سینے پر سر رکھ کر پوچھتی ہوں، مجھ سے خفا ہو؟
تب وہ میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر خفگی سے میری آنکھوں میں دیکھتا ہے، پھر اڑتے بگولے شانت ہونے لگتے ہیں، آسمان پر بادل چھا جاتا ہے، بوندیں پڑتی ہیں، دھرتی بھیگتی ہے تو اس میں سے ننھے ننھے پودے سر اٹھاتے ہیں، بڑھتے ہیں، پھر ان میں کلیاں لگتی ہیں، پھول کھلتا ہے، خوشبو اڑتی ہے اور وہ مجھے اپنے سینے میں بھینچ لیتا ہے۔
مگر اس بار اس کو سینے پر سر رکھ کر کچھ پوچھ سکوں گی، اتنی دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھ سکوں گی؟ میری نظریں جھک نہ جائیں گی، میرا چور پکڑا نہ جائے گا، تو پھر کیا ہوگا، چہرے کی خراشوں کی کھرنڈ تو چھٹ گئی ہیں، ہلکی سفید لکیریں میک اپ سے چھپ جائیں گی مگر چھاتیوں پر دانتوں کے نشانات اور پیٹھ کی خراشیں۔
کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی وہ میرے کپڑے اتارنے شروع کردے گا، کتنے پیار اور ملائمت سے بلاوز کے بٹن اور بریشیر کے ہُک کھولتا ہے، پھر۔۔۔ بلب بھی نہیں بجھاتا، پھر مجھے اچھی طرح روشنی میں دیکھے گا، کانچ کی گڑیا کی طرح چھو چھو کر ہاتھ پھیر پھر کر، پھر مخصوص جگہوں پر ہونٹوں سے برش کرے گا اور تب۔۔۔ خراشیں اور دانت کے نشانات۔
تب اسے وہ تاریک رات یاد آئی، بند کمرے کی گھٹن، جدوجہد، آگ لاوا اور اڑتی ہوئی چٹانوں کی خراشیں، بے بس چڑیے کی طرح پھڑپھڑاتی ہوئی وہ اور آگ کی دہکتی ہوئی چٹان، نوکیلا پتھر اور۔۔۔ اور۔۔۔
تب اسے محسوس ہوا جیسے اس رات وہ پہلی بار عورت بنی تھی۔