سمٹی ہوئی زمین

منظر بڑا بھیانک تھا۔


کمرے کی دیواروں میں اس طرح شگاف پڑا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ دی ہوں، چھت غائب تھی، جس کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ گرد اور دھویں کا مینار کمرے سے بلند ہوکر اتنی تیزی سے اوپر جارہا تھا، جیسے کسی کو کہانی سنانے کی جلدی ہو یا کچھ روحیں اس گرد اور دھویں کے اندر چھپ کر فضائے بسیط میں گم ہوجانا چاہتی ہوں کہ دنیا والوں کی نظریں ان پر نہ پڑسکیں۔


گرد اور دھواں کچھ صاف ہوا تو دو نُچی ہوئی لاشیں زمین پر بکھری پڑی تھیں، جن کے اندر سے اب تک خون ابل رہا تھا اور زمین پر بہہ کر چھت کے ملبے میں جذب ہورہا ہے تھا، ایک کا چہرہ جھلس کر سیاہ ہوگیا تھا، دوسرے کے سر پر چھت کا ٹکڑا اس طرح گرا تھا کہ وہ خربوزے کی طرح بکھر گیا تھا۔ ایک آدمی جس کی دونوں ٹانگیں گھنٹوں سے اور بایاں ہاتھ کہنی سے غائب تھا، زمین پر پڑا ہوا تڑپ رہا تھا مگر اس کا چہرہ محفوظ تھا جس پر شدید ترین کرب کی لہریں تھیں اور اس کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں جنہیں روکنے کے لئے اس نے زبان دانتوں میں دبا رکھی تھی، اس کی آنکھیں کمرے میں بھٹک کر آسمان پر مرکوز ہوجاتیں، ان میں بے شمار سوالیہ نشان تھے اور ان کے گرد دھویں کا حصار جو نظروں کے ساتھ حرکت کر رہا تھا، اس کے بائیں ہاتھ کی مٹھی بھنچی ہوئی تھی ، جس میں گوشت کا ایک ٹکڑا تھا۔


دو آدمی دیوار سے ٹیک لگائے بے حس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سر کے بال جھلس گئے تھے اور سر جلی ہوئی گھاس کے میدان کی طرح سپاٹ ہوگیا تھا۔ ان کے چہروں پربے شمار پھوٹے ہوئے سیاہ آبلے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، مگر لگتا تھا بینائی زائل ہوگئی ہے کیوں کہ ان میں بڑی ویرانی تھی۔


پھر زخمی کے دانتوں سے زبان چھوٹ گئی اور وہ دونوں اس طرح ہڑبڑا کرکھڑے ہوئے جیسے گہری نیند سے جاگے ہوں۔ انہوں نے ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لیا، لاشوں پرنظریں پھسلتی ہوئیں زخمی آدمی پر رک گئیں او ران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے لہرانے لگے۔


’’اب کیا ہوا؟‘‘


دوسرا منہ کچھ نہیں بولا، صرف اپنے نمکین ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا مگر اس کی نظریں زخمی پر لگی رہیں، جس نے پھر زبان دانتوں میں اس طرح دبائی تھی کہ منہ سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔


’’کیا سوچ رہے ہو، صبح ہونے والی ہے، اگر جلدی کچھ کیا نہ گیا تو صبح ہوجائے گی اور پھر۔۔۔‘‘


دوسرے نے اس طرح گردن سہلائی جیسے کوئی ان دیکھا پھندہ اسے کس رہا ہو، تم جو کہو میں کروں گا۔ ’’میرے خدا یہ چند منٹ پہلے ہم سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ اور اب۔۔۔ یہ لاشیں، یہ زخمی اور گردن کی طرف بڑھتا ہوا پھندہ۔۔۔‘‘


’’آواز دور تک گئی ہوگی اور چپّوں کے انجن جاگنے لگے ہوں گے، اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں بھاگ چلو۔۔۔‘‘


’’ لاشیں تو چھوڑی جاسکتی ہیں، مگر یہ زخمی۔۔۔ پھر یہ مکان اور چہروں کی شناخت۔۔۔‘‘


’’بھاگ کر نہیں جاسکتے کہ راہیں مسدود ہوچکی ہیں۔ ہم چاروں طرف سے گھر چکے ہیں، بے چھت کی دیواروں میں قید ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں لاشیں ٹھکانے لگادی جائیں۔‘‘


’’اگر لاشیں ڈھوتے ہوئے پکڑے گئے تو۔۔۔؟‘‘


’’اور لاشوں اور زخمی کے ساتھ پکڑے گئے تو۔۔۔؟‘‘


’’تم ٹھیک کہتے ہو، پہلے نے جلے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا، لیکن ہماری غیر موجودگی میں وہ زخمی تک پہنچ گئے تو۔۔۔؟‘‘


’’دو لاشیں اورایک زخمی، نہ ہم لے جاسکتے ہیں، نہ چھوڑ سکتے ہیں، لے جائیں تو کسے چھوڑیں تو کس کو، اور لے جائیں تو کہاں؟‘‘ ان کے چہرے لٹک گئے تو زخمی نے آسمان سے نظریں پھیر کر ان کی طرف دیکھا اور دانتوں سے زبان چھوڑ دی۔


’’میری بات سنو، مجھے قتل کردو۔‘‘


’’قتل۔۔۔‘‘ وہ دونوں لرز گئے۔ ’’ نہیں یہ نہیں ہوسکتا، ہم یہ نہیں کرسکتے، ہم تمہیں جس طرح لائے تھے اس طرح واپس نہیں کرسکتے اسی کا افسوس ہے۔‘‘


’’بے وقوفی مت کرو، جو ہونا تھا ہوگیا، اب جو ہے اس کی حفاظت کی ایک ہی صورت ہے کہ مجھے قتل کر کے بھاگ جاؤ۔ اگر میں ان کے ہاتھ آگیا تو وہ زبان کھلوانے کے ماہر ہوتے ہیں، مگر لاشیں بے زبان ہوتی ہیں اس لئے تم محفوظ رہوگے۔‘‘


پہلے آدمی نے کواڑ کھول کر ادھرادھر دیکھا، صبح دھیرے دھیرے اتر رہی تھی، سناٹا پرندوں کے شور سے مجروح ہونے لگا تھا۔ دور سڑک پر ایک تاریک سایہ رینگ رہا تھا مگر وہ اتنی دور تھا کہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آرہا ہے یا جارہا ہے۔


کہیں وہ انہیں اطلاع دینے نہ جارہا ہو، اس نے جلدی سے کواڑ بند کرلیا اور دوسرے آدمی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بولا، ’’سڑک آباد ہونے والی ہے۔ اس سے پہلے ہم لاشیں کہیں چھپا سکتے ہیں، زخمی کو یہیں چھوڑ دو اگر حالات موافق رہے تو۔۔۔‘‘


’’میری بات سنو، میرے باپ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ زخمی جلدی جلدی کہنے لگا اس نے بھی یہی کہا تھا جو میں کہہ رہا ہوں اور اس کی خواہش پوری کی گئی تھی۔ پھر کچھ نہیں ہوسکا کہ چشم ِدید آنکھیں ہوگئی تھیں۔‘‘


وہ دونوں اپنے کاندھوں پر لاشیں ا ٹھاتے ہوئے رک گئے، ان کے قدم ڈگمگائے۔ پھر وہ سنبھل گئے اور زخمی کی حسرت بھری نظریں انہیں دروازے سے باہر جاتے دیکھتی رہیں۔


’’اب کیا ہوگا۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا، اب میں کبھی کھڑا نہ ہو سکوں گا، دھرتی کا لمس محسوس نہ کرسکوں گا، بیوی کے ناتواں کاندھے پر ایک اور بوجھ، لوگ دیکھنے آئیں گے، اوربار بار دہرائی جانے والی من گڑھت کہانی بس اکسیڈنٹ، بجھتی ہوئی چولھے کی آگ کے ساتھ چہروں پر پھیلتی ہوئی زردی، کھٹکھٹائی جانے والی کنڈیوں کا شور، شرمندگی سے جھکی ہوئی نظریں، ضد کرتے ہوئے بچے اور تھپک تھپک کر سلاتی ہوئی ماں، بدن پر جھولتے ہوئے کپڑوں کی بو، صدیوں کی مسافت طے کر کے گزرتے ہوئے لمحوں کی کہانیوں میں خود کشیاں، اس کے چہرے پر گڑی ہوئی اداس نظریں اور سسک سسک کر گزرتی ہوئی طویل رات۔۔۔


قدموں کی کھڑکھڑاہٹ سے وہ وحشت زدہ ہوگیا۔ کون آرہا ہے؟ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، اس نے اپنی نظریں دروازے پر جمادیں، شاید انہیں خبر ہوگئی ہے او ر وہ ہوشیاری سے کمرے کے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں، جب ان کا گھیرا تنگ ہوجائے گا تو وہ دروازے سے اندر کا منظر دیکھیں گے۔ گری ہوئی چھت، دراڑیں پڑی ہوئی دیواریں، ناگوار سی بو، زمین پر بہا ہوا خون، گوشت کے ٹکڑے اور جب ان کی نظریں مجھ پر پڑیں گی تو ان کی آنکھوں میں ایسی چمک جاگے گی جیسی شکاری کی آنکھوں میں شکار دیکھ کر جاگتی ہے، پھر ان کے چہروں سے شعلے نکلیں گے اور بھیڑیے کی طرح خوں خوار دانت پیستے ہوئے میری طرف بڑھیں گے، میری تلاشیاں لیں گے، تصویریں لیں گے او رپھر ٹھوکریں اور گالیاں۔


کہانی سناؤ، تصویریں دکھاؤ ، ا ذیتیں۔۔۔ تھرڈ ڈگری، نام بتاؤ، پھر منظر بدلے گا، پھر نظریں بدلیں گی اور آخری ٹھوکر کے ساتھ میں کسی تنگ و تاریک کوٹھری میں جاگروں گا، تم نے ایسا کیوں کیا، تصویریں پوچھیں گی، کیا ضرورت تھی جب کہ جو ہونا تھا ہوچکا تھا۔۔۔ پھر اخباروں میں خبریں اوربیوی کی دروازے کی نگراں آنکھیں، ضد کرتے ہوئے بچے اور تسلی دیتی ہوئی ماں۔


تمہارے پاپا آئیں گے توڈ ھیر سی مٹھائیاں لائیں گے، کھلونے، ٹافیاں اور کپڑے۔۔۔ انتظار اورانتظار۔۔۔


اس نے زبان دانتوں میں دبا رکھی تھی کہ کہیں کراہنے کی آوازیں انہیں متوجہ نہ کرلیں، خون بہتا جارہا ہے، کاش کہ ان کے آنے سے پہلے سارا خون بہہ جائے اور میں اس اذیت سے نجات پاجاؤں جو میرا مقدر بن چکی۔


محتاط قدموں کی آوازیں کمرے کی طرف بڑھنے لگیں تو اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوگئی کہ درد کا احساس بھی زائل ہوگیا، وہ آرہے ہیں، سنگینیں اٹھائے ہوئے ، شعلے برساتے ہوئے، دانت پیستے ہوئے، اب وہ ٹھوکریں لگائیں گے، گالیاں دیں گے اور لہولہان جسم کو کتنی اذیتیں سہنی پڑیں گی۔


آہٹیں دروازے کے پاس رکیں تو اسے اپنے دل کی دھڑکنیں بھی رکتی ہوئی محسوس ہوئیں، پھر ان دونوں کا جھلسا ہوا چہرہ نظر آیا جس پر خوف کے گہرے سائے تھے اور وہ بار بار آسمان پر چڑھتے ہوئے سورج کو دیکھ رہےتھے۔


’’سڑکوں پر آمدورفت شروع ہوچکی ہے، ہم تمہیں کسی محفوظ جگہ پر کیسے لے جائیں،‘‘ پہلا پریشان لہجے میں دھیرے سے بولا، ’’اور یہاں چھوڑ بھی نہیں سکتے کہ وہ بس آنے ہی والے ہیں، یہ تو اچھا ہوا کہ یہ جگہ سنسان ہے ورنہ اب تک۔۔۔‘‘


’’وہ آرہے ہیں،‘‘ دوسرا گھبرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’اب کیا ہوگا؟‘‘


’’بس ایک ہی صورت ہے، مجھے قتل کردو، تم بھی بچ جاؤگے اور میں بھی، میرے اندر اتنی طاقت نہیں کہ میں زبان بند رکھ سکوں۔ پھر۔۔۔‘‘


’’کیا کہتے ہو؟‘‘ پہلے نے دوسرے سے پوچھا، ’’ابھی وہ دور ہیں تب تک ہم۔۔۔‘‘


’’ٹھیک ہے،‘‘ دوسرا بولا۔ ’’میں باہر رہتا ہوں، تم دل پر وار کر کے نکل آنا کہ ان کے پہنچتے پہنچتے۔۔۔‘‘


زخمی نے اطمینان کی سانس لے کر آسمان کو دیکھا، ، تجھے آخری بار دیکھ لوں، تیری حدت محسوس کرلوں، پھر میں سارے دکھوں سے آزاد ہوجاؤں گا ۔ کسی کا خون ، کوئی الزام میرے سر نہیں رہے گا۔


پہلا آدمی خنجر لیے میری طرف بڑھ رہا تھا، اس نے مسکراکر آنکھیں بند کرلیں، تب اسے اپنی بیوی نظر آئی، بچے نظر آئے، ان کی فرمائشیں یاد آئیں اور وہ چھ ماہ کا معصوم بچہ جو اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے۔ اب وہ کسی کو نہیں دیکھے گا، کبھی نہیں دیکھے گا، منتظر بیوی کو بھی نہیں، معصوم بچوں کو بھی نہیں، وہ اپنے پاپا کی راہ دیکھتے رہیں گے اور ماں انہیں تسلیاں دیتی رہے گی۔


تمہارے پاپا آئیں گے تو۔۔۔


اس نے گھبراکر آنھیں کھول دیں اور دوسرے لمحے خنجر بردار کلائی اس کے پنجے کی گرفت میں تھی۔