خدا حافظ
دیکھنے والوں نے بس اتنا دیکھا کہ کمپارٹمنٹ سے کوئی چیز پلیٹ فارم پر گری اور ٹرین کے نیچے چلی گئی۔
ایک آدمی جو اپنے عزیز کو رخصت کرنے آیا تھا اور باہر کھڑا کھڑکی سے اسے مناسب جگہ تلاش کرتے دیکھ رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک تین برس کا بچہ کمپارٹمنٹ سے پلیٹ فارم پر اترنے کی کوشش میں لڑھک کر ٹرین کے نیچے جاگرا۔ اس کے شور مچانے پر بھیڑ اکٹھا ہونے لگی۔ لوگ نیچے جھانک کر دیکھتے، بچہ آہنی پہئے کے پاس اوندھا پڑا تھا ، اس کا ہاتھ لائن کے اوپر تھا، اس نے اٹھنے کی کئی بار کوشش کی مگر اٹھا نہ گیا۔ اس کے رونے اور ممی پاپا کو پکارنے کی کمزور سی آواز پلیٹ فارم کے شور میں مدغم ہوگئی، ہر شخص چیخ رہا تھا کوئی اس بچے کو نکالو اس کے ماں باپ کہاں گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بچے کو کیسے بچائیں، ٹرین اور پلیٹ فارم کے درمیان چھ اینچ سے زیادہ جگہ نہ تھی، اس میں اترنا پھر جھک کر بچے کو اٹھانا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس اسٹیشن پر گاڑی صرف چار منٹ رکتی تھی اور سکنڈ کی سوئی تیزی سے اپنا دائرہ مکمل کر رہی تھی۔ گاڑی کسی لمحے حرکت کرسکتی تھی۔
کمپارٹمنٹ میں اطمینان سے بیٹھی رسالہ پڑھتی ہوئی جوان العمر عورت نے پلیٹ فارم کا شور سن کر رسالے سے نظریں ہٹاکر باہر کی طرف دیکھا ، لوگ ٹرین کے نیچے جھانکتے ہوئے بچے کا ذکر کر رہے تھے۔ بچے کا سن کر اس نے اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔ اس کا بچہ نظر نہ آیا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ بدحواسی میں دوڑتی ہوئی لوگوں کو ڈھکیلتی ہوئی ڈبے سے باہر نکلی، لوگوں کو ہٹاکر نیچے جھانکا اور پہئے کے پاس اپنے بچے کو پڑا دیکھا اس کے منھ سے چیخ نکل گئی راہل۔۔۔ پھر منظر گھومنے لگا، کھڑے ہوئے لوگ گھوم رہے تھے الیکٹرک پول گھوم رہا تھا۔ پیڑ گھوم رہے تھے۔آسمان گھوم رہا تھا اور آنکھوں کے آگے اندھیرے کی چادر پھیلتی جارہی تھی۔
لوگوں نے گرتی ہوئی عورت کو سنبھال کر آہستگی سے پلیٹ فارم پر لٹا دیا۔ نوجوان اسے ہوش میں لانے کی فکر کرنے لگے۔ چین کھینچو چین ۔۔۔ ایک نے چیخ کر کہا۔ کھڑی گاڑی کی چین کھینچنے سے کچھ نہ ہوگا، بھیڑ میں سے کوئی بولا تو ڈبے کی طرف بڑھتے قدم رک گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، اگر ٹرین حرکت میں آگئی پہیہ ایک بار بھی گھوم گیا تو ۔۔۔
دور کے نل سے پانی کی بوتل بھر کے ایک آدمی ڈبے کے پاس آیا شاید اس نے دور سے بھیڑ دیکھ لی تھی کیوں کہ اس کی رفتار دوڑنے کی حد تک تیز تھی، اس نے زمین پر پڑی ہوئی عورت کو دیکھا اور جب ٹرین کے نیچے اپنے روتے ہوئے بچے کو دیکھا تو پانی کی بوتل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ راہل۔۔۔ اس نے زور سے پکارا، چھٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا پھر چھ انچ کی جگہ میں دونوں پیر لٹکا دیئے۔ پاگل ہوگئے ہیں، لوگوں نے اسے دور کھینچ لیا، دونوں مرجائیں گے۔
راہل نہیں ہوگا تو میں جی کر کیا کروں گا، وہ رونے لگا، پھر دوڑ کر نیچے جھانکا راہل میرے بچے۔۔۔ بھگوان کے لئے کچھ کیجئے میرے راہل کو بچا لیجئے، وہ پلٹ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا کچھ دیر پہلے اور اس وقت کے آدمی میں زمین و آسمان کا فرق تھا، گاڑی کے اندر اس کی آواز میں کتنا اعتماد اور تکبر تھا، لفظوں میں خنجر کی چبھن اور سینے میں دہکتی ہوئی نفرت کی آگ۔
وہ مغل سرائے سے ٹرین میں سوار ہوا تھا اس کے ساتھ خوبصورت سی عورت اور چھوٹا سا بچہ تھا۔ جب تک اخبار والا نہیں آیا وہ بچے کی شرارتوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ دونوں طرف کی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی بچے کی شرارت اور بھولی بھالی باتوں میں دلچسپی لے رہے تھے، عورت نے بیٹھتے ہی بیگ سے فلمی میگزین نکال لیا تھا، جس کے سرِورق پر نیم برہنہ لڑکی کی بڑی سی تصویر تھی، عورت خود بھی خوبصورت تھی بلکہ تصویر والی لڑکی سے زیادہ خوبصورت، دودھیا رنگ، مکھن جیسی جلد، سانچے میں ڈھلی ہوئی انگلیاں، انار کے دانوں جیسے ناخن، شانے تک کٹے ہوئے بال، ہرنی جیسی آنکھیں اور ہلکے شیڈ والی لپ اسٹک میں کلیوں جیسے ہونٹ، گہرے گلے کا بلاؤز اور گردن سے بلاؤز کے اندر گہرائیوں میں اترتی ہوئی سونے کی دبیز چین۔
اس نے رسالہ کھولنے سے پہلے ایک نظر سامنے کی سیٹ پر بیٹھے مسافروں پر ڈالی، سب اسے ہی دیکھ رہے تھے، آنکھوں کی خاموش التجا اور طلب سے حسن کی داد وصول کر کے وہ مطمئن ہوگئی۔ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر چڑھایا، ساڑی درست کی پھر رسالے کی ورق گردانی کرنے لگی۔
بچہ بار بار مرد کی گود سے اترجاتا، زمین پر پاؤں مار کر اسکوٹر اسٹارٹ کرنے کی نقل کرتا پھر منہ سے ژوں کی آواز نکالتا ہوا سیٹوں کے درمیان کی جگہ میں دوڑنے لگتا، جب اس کا رخ ڈبے کے دوسرے حصے کی طرف ہوتا تو مرد اسے پکڑ لاتا، چھلکے اتار کر کیلا یا ٹافی اس کے منہ میں رکھ دیتا جب تک منہ چلتا رہتا وہ بیٹھا رہتا۔ منہ کی چیز ختم ہوتے ہی گود سے اتر جاتا۔ جب اس کے اسکوٹر کا رخ دوسری طرف ہوتا تو کوئی مسافر اٹھ کر اسے پکڑ لاتا، جب لوگ بچے کی شرارتوں پر ہنستے تو عورت رسالے سے نظریں ہٹاکر انہیں دیکھ لیتی اور اس کی آنکھوں میں فخر ہوتا، جیسے کہہ رہی ہو، میرا ہی بیٹا ہے۔
کسی اسٹیشن پر گاڑی رکی تو مرد ہندی کے کئی اخبار خرید لایا، جلدی جلدی سرخیوں پر نظر دوڑائی پھر اس کی نظریں ایک تصویر پر جم گئیں اور اس کی آنکھوں اور چہرے پر عقیدت اور احترام جھلکنے لگا۔
اس نے صفحہ موڑ کر تصویر کو نمایاں کیا اور سامنے بیٹھے مسافر سے کہا، اس تصویر کو دھیان سے دیکھئے، یہ سنت مہاراج جی ہیں، ابھی دیش واسیوں کو ان کی وششتاؤں کا پنرگیان نہیں ہے، جب بھی دھرم سنکٹ میں ہوتا ہے آسوری شکتیاں بڑھنے لگتی ہیں، تب تب بھگوان اس کی رکچھا کے لئے اوتار بھیجتا ہے، آج ہمارا دھرم سنکٹ میں ہے اس لئے اوتار نے جنم لیا ہے، دھرم پری ورتن اور آتنک وادیوں دوارا ہمارا دھرم نشٹ کرنے کا پریاس ہورہا ہے، جہادی راکشش چاروں دشاؤں سے امڈ رہے ہیں، ان سے ہماری رکھشا کرنے والا کون تھا؟ ایک بھی نام بتا دیجئے جس نے سچے من سے پریاس کیا ہو؟ اس نے رک کر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا، کچھ دیر تک کوئی نہ بولا تو وہ کہنے لگا، میں جانتا ہوں آپ کے من میں بھی وہی وچار ہے جو میرے من میں ہے، ہمارا کوئی رکچھک نہیں ہے، سب سوارتھ کے رتھ پر سوار ہیں ان کی کہنی کرنی میں انتر ہے، مارگ، گاڑیاں اور پوجا استھل اسرکچھت ہوگئے تو بھگوان نے بھگتوں کی دھرتی پر۔۔۔
اس نے دیکھا کہ لوگوں کے منھ گھوم کر فلمی میگزین پڑھتی عورت کی طرف ہوگئے ہیں، یہ جو سامنے دبلا پتلا جوان بیٹھا ہے سالا پکا حرامی ہے، عورت پر اس طرح نظریں گڑائے بیٹھا ہے جیسے جیون میں پہلی بار سندر استری دیکھی ہو، میں اسے گھورتا ہوں تو وہ اپنی نظریں ڈبے کی چھت کی طرف اٹھا دیتا ہے ،جیسے بے دھیانی میں نظر عورت پر چلی گئی ہو۔ بڑی دارشنک بنتا ہے سالا، اور یہ ادھیڑ عمر والے، بچے کی باتوں پر ہنستے ہوئے عورت کی طرف دیکھتے ہیں، اس سے کیا ہوگا، عورت ان پر عاشق ہوجائے گی انہیں مل جائے گی، یہ تچھ وچار کے لوگ عورت کو خوش کر کے کیا پانا چاہتے ہیں۔
’’میری بات سنئے۔۔۔‘‘ اس نے پھر سامنے والے سے کہا، ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا۔
’’آپ کس پارٹی کے ورکر ہیں؟‘‘ سامنے والے نے ہنس کر پوچھا۔
’’میں پارٹی ورکر نہیں پرچارک ہوں، مرد کو طیش آگیا، میں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس جیوتی کا پرچارک ہوں جو دور بہت دور پر جولت ہوئی ہے اور اب پورے دیش میں پھیلنے والی ہے جو آسوری شکتیوں کے ورودھ یدھ کے لئے۔۔۔‘‘
اب یہ دوا بیچے گا۔ کسی سیٹ سے آواز آئی تو وہ بھڑک کر چلانے لگا۔
ہاں میں دوا بیچنے والا ہوں، عقل کی دوا، ہوش کی دوا، اندھی آنکھوں کی دوا تاکہ تم اپنے ورودھ ہونے والے شڑینتر کو دیکھ سکو، یاون کیڑے مکوڑے کی طرح پچیس پچیس بچے پیدا کر کے تمہیں الپ سنکھیک بنانے کا پریتن کر رہے ہیں، یہ تمہیں دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے، ان کے ورودھ ، ان کا ناش کرنے کے لئے اس یدھ میں شامل ہوجاؤ جسے سنت نے گجرات سے پرارمبھ۔۔۔
ٹائم پاس کی تیز آواز سن کر وہ چپ ہوگیا۔
’’گرم ہے۔۔۔؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’چھوکر دیکھ لیجئے،‘‘ اس نے ٹوکری آگے کردی۔
’’سو گرام دے دو۔‘‘ بچہ بھی مونگ پھلیوں کے لئے ضد کرنے لگا تو مرد نے اس کے لئے بھی خرید لی، بچہ اس کی گود میں بیٹھ کر مونگ پھلیاں کھانے لگا۔ عورت رسالے میں ڈوبی ہوئی تھی، ممکن ہے دلچسپ کہانی ہو یا پوز دے رہی ہو، اس نے ایک باربھی نہ شوہر سے بات کی نہ بچے سے، بچہ شاید اس کی عادت سے واقف تھا یا باپ نے خود ہی ساری ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں اور عورت بے فکر ہوگئی تھی۔ ساڑی کا آنچل شانے سے سرک کر سینے کی داہنی کیل سے جھول گیا تھا اور اس طرح نظارے کے لئے وسیع میدان فراہم ہوگیا تھا۔ مونگ پھلیاں کھاکر بچے نے پانی مانگا، پانی کی بوتل عورت کے بغل میں تھی مرد نے اس کے پیروں پر جھک کر بوتل اٹھاکر دیکھا۔ پیندی میں تھوڑا سا پانی بچا تھا، جس میں کوئی سیاہ سی چیز تیر رہی تھی۔
’’گندہ ہے مت پیو،‘‘ مرد نے پانی کھڑکی سے باہر پھینک دیا بچہ بسورنے لگا تو مرد نے سمجھایا، اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکے گی، تو پانی لے آؤں گا، تب تک تم اسکوٹر چلاؤ اس نے بچے کو کھڑا کیا ہاں کک مارو، ژوں۔۔۔
مگر بچہ پانی کے لئے ضد کرتا رہا تو نوجوان نے اپنے تھیلے سے پانی کی بوتل نکالی مگر مرد اس کا پانی بچے کو پلانا نہیں چاہتا تھا، اس نے بے مروتی سے انکار کیا اور بچے کو بہلانے لگا دیکھو گاڑی کی رفتار کم ہورہی ہے، اسٹیشن آرہا ہے، تم بہادربچے ہو تھوڑی دیر رک جاؤ لو یہ ٹافی کھاؤ۔
گارڈ کے ڈبے سے ہری جھنڈی دکھائی جارہی تھی، اب انجن سیٹی دے گا اور گاڑی حرکت میں آجائے گی، لوگ وحشت زدہ نظروں سے انجن کی طرف دیکھ رہے تھے، اچانک عورت کے سامنے بیٹھا دبلا پتلا نوجوان اوندھے منہ پلیٹ فارم پر لیٹ گیا اور داہنا ہاتھ نیچے لٹکا دیا۔ گاڑی سیٹی دینے والی تھی نوجوان کی بے چین انگلیاں بچے تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں ، ہاتھ چھ انچ دور سے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ میرا بایاں ہاتھ پکڑ لیجئے۔ نوجوان نے پاس کھڑے آدمی سے کہا اور آدمی کے ہاتھ پکڑتے ہی وہ شانے تک خلا میں جھول گیا اور پھر بچے کی نیکر اس کی انگلیوں کی گرفت میں آگئی۔
گاڑی نے سیٹی دی اور لوگوں کی سانسیں تھم سی گئیں، بچہ نوجوانوں کی انگلیوں میں کسی خرگوش کی طرح لٹکا ہوا تھا۔ سنبھل کر دھیرے دھیرے شاباش، بھیڑ اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ پھر گاڑی حرکت میں آگئی۔ پہئے گھومنے لگے تو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، نوجوان بچے کو پلیٹ فارم کی دیوار سے سٹائے ہوئے تھا، پھر اس کے شانے کو شدید جھٹکا لگا، جھٹکے سے وہ کچھ آگے سرک گیا، چلتی گاڑی کا پائیدان اس کے شانے سے ٹکرایا تھا، شانے میں شدید درد اٹھا لمحےبھر کے لئے ہاتھ شل ہوتا ہوا محسوس ہوا اس نے دانت بھینچ کر ہاتھ دھیرے دھیرے اوپر کھینچنا شروع کیا، سانپ کی طرح گردن موڑ کر پیچھے دیکھا، دوسرے ڈبے کا پائیدان اس کی طرف بڑھتا آرہا تھا اس نے بڑی پھرتی اور احتیاط سے اپنا ہاتھ باہر کھینچ لیا اور کروٹ بدل کر گاڑی سے دور ہوگیا، راہل اس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔ انجن سے سیٹیاں بلند ہورہی تھیں شاید کسی نے زنجیر کھینچ دی تھی۔ گاڑی دھیرے دھیرے رک گئی عورت ہوش میں آگئی تھی اور مرد پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا، گاڑی رکتے ہی نوجوان راہل کو سینے سے چٹمائے دوڑا اور ڈبے میں سوار ہوگیا مرد اور عورت بھی بھاگ کر ڈبے میں چڑھ گئے۔
عورت راہل کو گود میں لئے ا س کا منہ چوم رہی تھی، راہل بیٹے آنکھیں کھولو تم بچ گئے ہو، تم ٹھیک ہو آنکھیں کھولو نا۔۔۔ وہ بری طرح رورہی تھی، مرد بچے کا بدن ٹٹول کر اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ کوئی نقصان تو نہیں پہنچا۔ بہت دیر بعد بچے نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں، پہلے ماں پھر باپ کے چہرے کو غور سے دیکھا، پھر آس پاس کے آدمیوں کو دیکھ کر خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ تب مرد کو یاد آیا کہ راہل پیاسا ہے اور وہ اس کے لئے پانی لینے گیا تھا، مگر پانی کی بوتل تو اسٹیشن پر چھوٹ گئی تھی اس نے نوجوان کی طرف دیکھا جو اپنا داہنا شانہ پشت کی دیوار سے کس کر دبائے ہوئے تھے، نوجوان نے کچھ کہے بغیر پانی کی بوتل اسے تھما دی۔ پانی پی کر بچے کے حواس بحال ہوئے تو اٹھ کر بیٹھ گیا، مگر بے حد ڈرا ہوا تھا، مرد نے اسے کھڑا کر کے اچھی طرح دیکھا کہیں چوٹ کا نشان نظر نہیں آیا تو مطمئن نظر آنے لگا۔ عورت نے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے گلے سے چین اتاری اور نوجوان کے ہاتھ پر رکھ دی۔ سونے کی ٹھنڈک محسوس کر کے نوجوان نے آنکھیں کھول دیں، پہلے سونے کی چین کو دیکھا پھر عورت کو جس کی آنکھوں میں التجا تھی۔
’’بہن جی، مارنے کی باتیں سب کرتے ہیں بچانے کی کوشش کوئی نہیں کرتا، میں راہل کو بچا سکا یہی میرا انعام ہے،‘‘ اس نے چین عورت کی گود میں رکھ دی اور اپنا سامان ٹھیک کرنے لگا اس کا اسٹیشن آنے والا تھا۔
لکھنؤ اسٹیشن پر گاڑی آئی تو اس نے راہل کا گال تھپتھپایا او رعورت پر نظر ڈالتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا، مرد اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، گیٹ پر پہنچ کر اس نے نوجوان کا ہاتھ پکڑ لیا، اپنا نام بھی نہیں بتاؤگے؟
’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ نوجوان نے مرد سے پرتپاک مصافحہ کیا اور ’’خدا حافظ‘‘ کہہ کر ڈبے سے اتر گیا۔ مرد نے کپکپاتے ہونٹوں سے پلیٹ فارم کی بھیڑ میں گم ہوتے ہوئے نوجوان کو آہستہ سے ’’خدا حافظ‘‘ کہا اور خاموش اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔
بچہ ماں کے پاس بیٹھا کھیل رہا تھا۔۔۔