بادل
ہوائیں بوجھل ہوگئیں، چھٹی حس کے تار چیخ پڑے۔
ذہنوں میں خطرے کا الارم بجنے لگا، وہ آرہا ہے، بہت جلد آرہا ہے، ہوشیار ہوجاؤ، سرحدوں کی کڑی نگرانی کرو، دروازوں اور کھڑکیوں پر پہرے بٹھادو، جاگتے رہو، خبردار کوئی پل بھر کے لئے بھی آنکھیں بند نہ کرے، بتیاں جلتی چھوڑ دو کہ اندھیرا اس کا مسکن ہے۔ وہ آئے گا اور چپکے سے کہیں بیٹھ جائے گا، پھر رات کے سناٹے میں باہر نکل کر نیند کی مالی بستی پر ظلمت کی طرح چھا جائے گا، صبح جب آنکھیں کھلیں گی تو سورج نہیں نکلے گا، روشنی نہیں ہوگی اور وہ فتح کے شادیانے بجاتا گلیوں اور شاہراہوں پر گشت کرے گا ، سب کی قسمتوں کا مالک بن جائے گا اور پھراس سے کبھی نجات نہیں ملے گی، کوئی نجات نہ دلاسکے گا، اس لئے ہوشیار رہو، جاگتے رہو، بتیاں جلتی چھوڑ دو، روشنی اور تیز کرو کہ اس سے نجات کی خطرے کے بعد سد ِباب کی یہی ایک صورت ہے۔
مگر روشنی کیسے کی جائے کہ کراسن تیل نہیں ملتا، لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، روشنی کیسے تیز کی جائے کہ بجلی والے ہڑتال پر ہیں اور ہم اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، اب تو اندھیرا اتنا بڑھ گیا ہے کہ دن ہونے پر، سورج نکلنے پر بھی دھند نہیں چھٹتی، کوئی چیز صاف نظرنہیں آتی،گلیوں اور شاہراہوں پر رات سدا کے لئے خیمہ زند ہوگئی ہے، ایسے میں ظلمات کا دیوتا آرہا ہے اسے کیسے روکا جائے؟
سب کے ہونٹوں پر سوالات تھے جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
پھر ریڈیو سے اعلان ہونے لگا، اخبارات چیخ پڑے، ہوشیار وہ آرہا ہے۔
سب کی آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں، ہم تو پہلے ہی سے پریشان ہیں اور اب یہ۔۔۔ کیا آپ نے یہ حفاظتی تدبیریں کیں؟
حفاظتی۔۔۔ نہیں، ابھی تو میں اس سوچ میں ہوں کہ تدبیریں کیسے کی جائیں اور تدبیروں کے بعدبھی ہم اسے روک سکیں گے، وہ رک سکے گا؟
لوگ تمام رات جاگتے رہتے، کھڑکیوں سے باہر تاریک گلیوں اور سڑکوں پر نظریں جمائے رہتے، کسی کا سایہ دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں، مگر جب وہ آگے بڑھ جاتا تو اطمینان کا سانس لے کر نئے سرے سے نگرانی شروع کردیتے، جاگتے جاگتے آنکھیں ٹھنس گئیں، دماغ بوجھل ہوگیا۔
تب ایک نئے خیال نے سر ابھارا اور وہ گھروں سے باہر نکل ا ٓئے سرگوشیاں الفاظ بن گئیں۔
کیا آپ اسے پہچانتے ہیں، آخر وہ کیسا ہوگا؟
وہ۔۔۔ارے۔۔۔ وہ سب فکرمند ہوگئے، واقعی یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم کس کی راہ دیکھ رہے ہیں، جب اسے پہچانتے نہیں تو اس طرح جاگتے جاگتے پاگل ہوجائیں گے اور جب وہ آئے تو اس کی راہ روکنے والا کوئی نہ ہوگا، پھر ہمارے گلوں میں زنجیریں ہوں گی جس کا سرا اس کی کلائی میں بندھا ہوگا اور۔۔۔
مگر دوستو اس کا کیا ثبوت کہ وہ آ نہیں گیا ہے؟
وہ آگیا ہے؟ وہ سب خوف زدہ ہوگئے، نہیں ایسی باتیں نہ کرو کہ ہم پہلے ہی سے پریشان ہیں، مگر یہ سوال بہت اہم ہے کہ اس کی پہچان کیا ہے، لہٰذا ہمیں کسی طرح اس کی پہچان معلوم کرنی ہے، اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو پھر بہت کچھ ہوسکے گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کی پہچان کون بتائے گا؟
ہمیں کتابوں میں دیکھنا چاہئے، لوگوں سے پوچھنا چاہئے، کسی نہ کسی کو ضرور معلوم ہوگا۔
ہاں یہ ٹھیک ہے، انہوں نے اقرار میں سر ہلایا اور گھروں کو لوٹ گئے، صندوقوں، الماریوں اور طاقوں پر سے کتابیں اتاریں اور مطالعے میں ڈوب گئے مگر۔۔۔ انہوں نے سر اٹھاکر بے بسی سے کھڑکی سے باہر دیکھا، اتنا کچھ اور اتنی باتیں۔۔۔ وہ پریشان ہوگئے، ہمارے پاس نہ اتنا وقت ہے، نہ دماغ اور وہ آرہا ہے، لہٰذا ۔۔۔کتابوں کے مطالعے میں ہم گردو پیش سے غافل ہوگئے، ایسے میں اگر وہ آگیا تو اور کیا پتہ اس نے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھایا ہو اور۔۔۔
انہوں نے مشکوک نظروں سے گردو پیش کا جائزہ لیا، کونے کھدروں میں تلاش کیا، لوگوں کے چہرے ٹٹول کر دیکھے اور جب انہیں اس کا یقین ہوگیا کہ وہ نہیں آیا ہے تو پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔
کتابیں تو ہمیں گمراہ کر رہی ہیں اور ایسے وقت میں گمراہی تباہی کی ضامن تو بس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم ٹولیوں میں بٹ کر لوگوں سے ملیں، کہیں نہ کہیں سے امید کی کرن ضرور پھوٹے گی۔
انہوں نے مطمئن انداز میں سرہلایا، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے کہ وہ آرہا ہے اور ہمارے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ دانشوروں کے پاس گئے، ہماری مدد کرو، ہم بہت پریشان ہیں اور تم تین آنکھوں والے، ہمیں بتاؤ کہ وہ آرہا ہے، آخر ہم اسے کیسے پہچانیں؟
انہوں نے کتابوں پر سے نظریں اٹھائیں، چشمے کی اوٹ سے انہیں دیکھا۔ کچھ دیر تک سوچتے رہے، پھر دھیرے سے بولے۔
اس کی پہچان۔۔۔ وہ ایک چہرہ ہے گردش کرتا ہوا، بہت بڑا۔ جس کے آنکھیں نہیں ہیں اور ناک کی جگہ گہرا غار ہے جس سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہوں گی، زبان باہر کو نکلی ہوئی اور اس سے خون ٹپکتا ہوا، وہ چہرہ اتنی تیزی سے گردش کرتا رہا ہوگا کہ اس پر نظریں جمانا دشوار ہوگا اس لئے یاد رکھو۔۔۔ آگ کی لپٹیں اور گردش کرتا ہوا چہرہ۔
وہ سیاست دانوں کے پاس گئے توانہوں نے لاپرواہی سے کہا، وہ صرف جسم ہے بہت قد آور اتنا کہ اس کے دونوں پیر شہر کے دونوں کناروں پر رکھے ہوں گے اور اس کا پھیلا ہوا ہاتھ سب پر حاوی ہوگا۔
پادری کے چہرے پر خوف کے سائے تھے، اس کی پہچان، اس نے آنکھیں بند کرکے سینے پر کراس بنایا، وہ اڑتا ہوا سانپ ہے، بہت بڑا مگراندھا، وہ دیواروں سے ٹکرائے گا شہر کا چکر لگائے گا۔
ادیبوں نے کہا، ہم تو اس کے آنے کی پیشیں گوئی بہت پہلے سے کر رہے ہیں، وہ ایک قوی ہیکل پرندہ ہے، اس کے چنگل میلوں لمبے ہوں گے، اس کا منہ چمگادڑ جیسا ہوگا اوراس کی مکروہ پیشانی پر صرف ایک آنکھ ہوگی جو رنگ بدل رہی ہوگی۔
واعظ نے بتایا، ہماری کتابوں میں اس کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کانا ہے اور اپنے ایک ہا تھ پر جنت دوسرے پر جہنم لیے گلی گلی گھوم رہا ہوگا۔
شام میں جب وہ ایک جگہ جمع ہوئے تو تھک کر چور ہوگئے تھے اور ہر ایک اس پر مصر تھا کہ اس کی پہچان صحیح ہے اور اس کے علاوہ دوسری ہو ہی نہیں سکتی، وہ اپنے فن کے ماہر ہیں، انہیں جھٹلانا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔
بات بڑھ گئی ، چہروں پر خون جوش مارنے لگا، آنکھیں گہری خاکستر ہوگئیں اور بدظنی نے اپنا جھنڈا گاڑ دیا تو وہ یہ کہتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹے کہ وہ اپنے طور پر خطرے کا تدارک کریں گے اور جب وہ آجائے گا تو پتہ چلے گا کہ افسوس کا وقت بھی نکل چکا ہے اور۔۔۔
جب غصہ کم ہوا اور حفاظتی تدبیروں کی فکر ہوئی تو کئی مسئلے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے چہروں پر لہریں مچلنے لگیں، حفاظتی اقدامات کیسے کئے جائیں کہ پاس میں کچھ بھی نہیں ہے اور کس چیز کی حفاظت کریں کہ یہی پتہ نہیں ہے کہ وہ آئے گا تو کیا ہوگا۔۔۔؟
وہ سوچتے رہے اور خطرے کا الارم تیز ہوتا گیا ، ہوا کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہوگئیں وہ آرہا ہے، بہت جلد آرہا ہے، وہ بس پہنچنے ہی والا ہے ، ہوشیار ہوجاؤ کہ ۔۔۔
ان کے دل کی دھڑکنیں لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جارہی تھیں اور سوچتے سوچتے جب ان کے سر دکھنے لگے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو پھر میدان میں جمع ہوئے۔
جس نے جو بتایا سب صحیح ہے مگر سوال یہ ہے کہ حفاظت کیسے کی جائے، کس چیز کی کی جائے، اور وہ آئے گا تو کیا ہوگا، جب تک ہم یہ نہ مانیں گے خطرے کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے اس لئے ہمیں ایک بار پھر لوگوں سے ملنا ہوگا، پوچھنا ہوگا کہ۔۔۔
تم سچ کہتے ہو، انہوں نے اقرار میں سر ہلایا، ہم بھی یہی سوچ رہے تھے تو پھر۔۔۔
وہ آئے گا تو۔۔۔ دانشوروں نے ناگواری سے کتابوں سے نظریں اٹھائیں، اتنی گرمی ہوگی ، اتنی گرمی کہ لوگ اپنے جسموں کے کپڑے نوچ کر پھینک دیں گے اور کنویں تالابوں میں چھلانگ لگادیں گے مگر وہ سب سوکھ چکے ہوں گے۔ ہر طرف آگ ہوگی بھیانک آگ۔
یہ سب مخالف کیمپ کی افواہ ہے۔ سیاست دانوں نے بیزاری سے کہا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار آچکا ہے مگرکیا ہم آج زندہ نہیں ہیں؟ ہمارے دلوں میں جینے کی امنگ نہیں ہے؟ ہم آج بھی زندہ ہیں کل بھی زندہ رہیں گے۔
پادری خوف سے زرد ہوا جارہا تھا، وہ اڑتا ہوا اندھا سانپ دیواروں سے ٹکرائے گا تو۔۔۔ دیواریں ریت کی تودوں کی طرح ڈھ جائیں گی جس پر اس کا منحوس سایہ پڑے گا وہ نیلا ہوکر مرجائے گا، بڑی تباہی ہوگی، بڑی تباہی۔
چمگادر جیسے منہ والا پرندہ پہلے کھیتوں پر حملہ کر ے گا اور کھیت بنجر ہوجائیں گے، پھر وہ گھروں کا رخ کرے گا اور اناج کا ایک دانہ بھی نہ بچے گا، وہ ہریالی کا دشمن ہے، اناج کا دشمن ہے۔
وہ لوگوں کو دعوت دے گا، مجھ پر ایمان لاؤ اور جولوگ ایمان لائیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے، وہ دراصل جہنم ہوگا اور جو ثابت قدم رہیں گے اور جہنم میں ڈالے جائیں گے در اصل وہ ۔۔۔
تو اندھیرا اور بڑھ گیا، انہو ں نے حسرت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا، اتنے انتظامات کیسے ہوں گے کہ ہم ان میں سے کوئی ایک کرنے لائق بھی نہیں ہیں اور کیا پتہ کس کی بات سچ ہوجائے تو پھر۔۔۔ خطرے کی گھنٹیاں نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہیں، ہوا کی چیخیں کراہوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اور کوئی سسک سسک کر رورہا ہے۔
جلدی کرو لوگو، وہ بس پہنچنے ہی والا ہے، جلدی کرو کہ وقت ختم ہورہا ہے۔ پھر اتنی مہلت بھی نہ ملے گی کہ۔۔۔
ہم کیا کریں، وہ بے چینی سے ہاتھ مل رہے تھے، ہم کیا کریں کہ ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے اور وقت پر لگا کر اڑ رہا ہے، وہ ہر لمحہ قریب ہوتا جارہا ہے، قریب اور قریب۔
لوگوں کی نظریں دور افق پر مرکوز ہوگئیں، کب کوئی سیاہ نقطہ نمودار ہوگا۔ دھیرے دھیرے پھیلے گا اور پھر۔۔۔ کان آہٹ پر لگ گئے کہ پر پھڑپھڑائیں گے اور پھر۔۔۔ گرمی بڑھے گی اور پھر۔۔۔
مولوی برکت اللہ نے نماز پڑھ کر سلام کے لئے منہ پھیرا تو وہ نظر آگیا اور ان کا منہ پھرا کا پھرا رہ گیا۔
رکشہ والا اپنی دھن میں مست سیٹی بجاتا ہوا رکشہ چلا رہا تھا کہ وہ سامنے آگیا۔ سیٹی بجاتے ہوئے ہونٹ ساکت ہوگئے اور رکشہ ایک نالے میں گر کر الٹ گیا۔
یونی ورسٹی کیمپ سے ایک لڑکا اور لڑکی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ہونٹوں پر محبت کا گیت لئے باہر نکلے تو وہ سامنے کھڑا تھا، دونوں پتھر کے ہوگئے۔
معصوم بچہ قلقاری مار کر ہنس رہا تھا اور ماں باپ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے کہ وہ آگیا۔
وہ آگیا ہے، ہوا چیخ کر ساکت ہوگئی۔
وہ آگیا ہے، اخبار شور مچارہے تھے۔
وہ آگیا ہے، سرگوشیاں بوند بوند کانوں میں اتر رہی تھیں، دل لرز رہے تھے،نظریں ایک دوسرے سے الجھ رہی تھیں، گھر کی چھتیں غائب ہوگئیں، زمین پیروں سے سرکنے لگی، لوگ جائے پناہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے، وہ آگیا ہے شہر میں گھوم رہا ہے۔
اس کے خلاف ایک بڑے جلوس کی تیاریاں ہورہی تھیں، مشتعل ہجوم ہاتھوں میں سیاہ جھنڈیاں لئے مردہ باد کے نعرے لگانے ہی والا تھا کہ وہ سامنے آکھڑا ہوا اور ۔۔۔
وہ اسکولوں اور کالجوں میں گیا، وہ دفتروں، ملوں اور دوکانوں پر گیا۔۔۔ پھر وہ دروازوں پر آیا۔
لوگوں کی نظریں ایک نقطہ پر مرکوز ہیں، وہ اسے پھیرنا چاہتے ہیں، زبان ہلانا چاہتے ہیں، حرکت کرنا چاہتے ہیں، مگر۔۔۔
شہر جاگ رہا ہے، شہر سوگیا ہے۔
اور ٹرینیں اور موٹر گاڑیاں شور مچاتی ہوئی بھاگ رہی ہیں۔