اداس شام بہت دیر تک رلائے گی
اداس شام بہت دیر تک رلائے گی
پھر اس کے بعد کوئی آنکھ جھلملائے گی
عجیب اشک تھا جو گال تھپتھپاتا رہا
عجیب آنکھ ہے کہ ہجر بھی منائے گی
میں اس کے ہونٹ بناؤں گا اپنی مرضی سے
اسی بہانے لبوں پر ہنسی تو آئے گی
بدن کی شال پہ اس نے گلاب کاڑھے ہیں
میں اس کو اوڑھوں گا تو اس کی خوشبو آئے گی
ہوا کے کان بھرے ہیں اسی لیے میں نے
مجھے پتہ ہے اسے جا کے سب بتائے گی